پاکستان اور یو اے ای کا افغانستان کی صورتحال پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق

پاکستان اور یو اے ای کا افغانستان کی صورتحال پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق
کیپشن: پاکستان اور یو اے ای کا افغانستان کی صورتحال پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید النہیان نے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ کے مابین بات چیت میں کثیرالجہتی دو طرفہ تعلقات، تمام شعبوں میں تعاون پر اور علاقائی امور سمیت افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں وزرائے خارجہ نے اہم علاقائی و باہمی دلچسپی کے امور بشمول افغانستان کی صورتحال پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے شعبہ جات میں تعاون کی نوعیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

وزیر خارجہ نے اماراتی ہم منصب کو دبئی میں منعقد ہونے والے ایکسپو 2020 کے بہترین انتظامات پر مبارکباد دی اور ایکسپو کی شاندار کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی جریدے انڈپینڈنٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں افغانستان سے متعلق خصوصی بات کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ نئی حقیقت کو قبول کریں اور معاشی تباہی سے بچنے کے لیے طالبان کی مدد کریں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ اور مغربی اتحادی ممالک کوئی سیاسی شرائط کے بغیر امداد کی فراہمی میں مدد کریں، نئی حقیقت کو قبول کریں اور ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے دیا جائے۔

انہوں نے مستقبل کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکام کو تنہا کرنے سے معاشی تباہی، انارکی اور افراتفری پیدا ہوگی، اگر طالبان مثبت باتیں کہہ رہے ہیں تو انہیں اسی سمت میں جھکائیں، کونے میں نہ دھکیلیں۔

شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کو لینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی کئی دہائیوں سے جاری تنازعات سے کئی لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اس وقت مکمل طور پر بین الاقوامی عطیات پر انحصار کر رہا ہے ، جو طالبان کے کنٹرول کے بعد سے اچانک رک گیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، بشمول جنگ زدہ ملک میں خوراک اور طبی سامان بھیجنا۔