شہباز شریف اور سویلین سٹرکچر……

شہباز شریف اور سویلین سٹرکچر……

وزیراعظم شہباز شریف دن رات سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کوشاں اور ملک کے طول عرض کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں جس کے لیے ان کی ستائش اور ہمت افزائی ضروری ہے۔ 
سیلاب میں دیگرنقصانات کے علاوہ لوگوں کے لاکھوں مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ جن متاثرین سیلاب زدگان کا لائیو سٹاک سیلاب کی نذر ہو چکا ہے حکومت سو فیصد تو ان کا مداوا نہیں کر سکتی لیکن اگر حکومت دوسری امداد کے علاوہ فی گھر  بھیڑ بکری یا گائے دے دے تو اس سے ان لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں ہمت مل سکتی ہے۔ کام مشکل ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف میں یہ اہلیت ہے کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ اقوام عالم  کے وہ ممالک جن کے پاس لائیو سٹاک وافر موجود ہے سے امداد کے طور پر اجناس یا کیش کے لائیو سٹاک کی اپیل کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح سیکڑوں سکول بھی تباہ ہو چکے ہیں وزیر اعظم کو چاہیے کہ مخیر حضرات کو دعوت دیں کہ وہ ایک ایک سکول کی جزوی یا مکمل بحال کرنے کے لیے آگے آئیں اور وہ سکول بقدر حصہ اس مخیر شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔ یہی حال ہسپتالوں کا ہے تباہ شدہ ہسپتالوں اور دیہی مراکز صحت کی مکمل یاجزوی بحالی کے لیے بھی یہی طریقہ آزمایا جا سکتا ہے۔ 
اس سیلاب اور ماضی کی آفات میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کا سویلین سٹرکچر کہیں نظر نہیں آیا جبکہ این ڈی ایم اور پی ڈی ایم جیسے جہازی ادارے بھی اربوں کے بجٹ کے ساتھ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول زرداری کی سب سے زیادہ عرصے سویلین حکومت رہی لیکن  انہوں نے ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کے لیے ملک کے سویلین انفرا سٹرکچر پر کوئی توجہ نہیں دی۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ادارے اور اربوں کے فنڈز بھی موجود ہیں لیکن کارکردگی صفر ہے۔ ہمارے ملک میں سیلاب عام بات ہے اور اکثر جنگلات بھی آگ سے متاثر ہوتے ہیں حکمرانوں کے آرام دہ سفر کے لیے نت نئے جہاز اور ہیلی کاپٹر خریدے جاتے ہیں لیکن آگ بجھانے کے لیے  ہیلی کاپٹر یا جہاز نہیں خریدے گئے۔  
سندھ کا تو یہ حال تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں کی صوبائی حکومت کے پاس وبائی امراض  سے نمٹنے کے لیے اور عام دوائیاں، مچھر دانی جیسی عام چیز اور کشتیاں بھی ندارد تھیں جبکہ وہاں ہر سال اربوں کا بجٹ اس پر صرف ہوتا ہے۔ کم و بیش یہی حال پنجاب، کے پی، بلوچستان اور جی بی کا بھی ہے۔ اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کو ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے اربوں کے فنڈز تو مہیا ہیں لیکن وقت آنے پر ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ فوج کی طرف یا امداد پر زور کیوں ہوتا ہے۔ یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ تو فوج کا انفرا سٹرکچر ہی تھا 
جس نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکالا اور ان کی امداد بھی کی اور اب ان کی بحالی کے لیے بھی کوشاں ہیں اس پر فوج پر کھلے عام تنقید بھی کی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سویلین سٹرکچر کہاں ہے اس کا حساب کون دے گا اور کون لے گا؟ 
کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچستان اور سندھ کے وزراء اعلی کی طرح پنجاب، خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان کے وزرا ء اعلیٰ بھی وزیر اعظم کے ساتھ ہوتے تو ایک قومی یک جہتی کا تاثر ابھرتا۔ لیکن سیلاب سے جہاں ملکی معیشت متاثر ہوئی، سیکڑوں لوگ اور لاکھوں جانور جانوں سے گئے، روڈ نیٹ ورک و فصلیں تباہ ہوئیں لوگ بے گھر ہوئے وہیں امداد اور بحالی کی آڑ میں سیاست دانوں کو اس تباہ کاری میں بھی سیاست بگھارنے کے مواقع بھی ملے ہیں۔ اور ایسے ماحول میں جب اس امدادی مہم سے سیاسی فائدہ  اٹھایا جانا بھی یقینی ہو تو  غیر اتحادی وزرا ء اعلیٰ کو وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا کر کے امدادی کریڈٹ بانٹنے کا رسک کیونکر لیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں نہ کہ صرف پی ڈی ایم کی متحدہ حکومت کے وزیر اعظم اس لیے انہیں بڑا دل کرتے ہوئے غیر اتحادی حکومتوں کے وزراء اعلیٰ کو بھی ساتھ رکھنا چاہیے اس سے قومی یک جہتی کا تصور بڑے گا۔
سیلاب تو گزر گیا لیکن اب سیلابی پانی کا انخلا اور سیلاب زدگان کی بحالی، وبائی امراض سے بچاؤ، ان کے مسمار گھروں کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان صوبہ سندھ میں ہوا اس کے بعد بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کا آتا ہے۔ 
سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم فرماتے ہیں ہمارے اتنے وسائل نہیں کہ راتوں رات سیلاب متاثرین کی مدد کی جا سکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیش رو عمران خان پر پاکستانی میڈیا پر اس کی کوریج پر پابندی لگا دی ہے۔ حیف ہے۔
سیلاب کا پانی تو اتر گیا لیکن اپنے پیچھے تباہی کی انمٹ داستانیں چھوڑ گیا۔ سیلاب کے نقصانات کی مقامی اور  عالمی میڈیا نے بھر پور کوریج کر کے دنیا کی اس طرف توجہ دلائی حکومت کی اقوام عالم کو امداد کی اپیل کا مثبت جواب آیا اور کھربوں روپے کی امداد ملی۔ عمران خان نے بھی ٹیلی تھون کے ذریعے اربوں روپے اکٹھے کیے اور حکومت کو دعوت دی کہ ان پیسوں کے سیلاب زدگان کی مدد کے لے مشترکہ عملی بنائیں لیکن حکومت کی طرف سے جواب نہ آیا۔ جواب آئے بھی کیوں کہ اگر عمران کے اکٹھے کئے پیسے لئے گئے تو کریڈٹ بھی باٹنا پڑے گا۔ ایسے ماحول میں جب کہ عام انتخابات کا بگل کسی بھی وقت بج سکتا ہے اور حکومت ایسا کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے ہر حکومت کی طرح متحدہ حکومت سیلاب کا بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ سیلاب کا پانی اترنے کے ساتھ ہی سیلاب زدگان کی بحالی اور سیلابی سیاست بھی شروع ہو چکی ہے اورماضی کی طرح سیلاب زدگان کی امداد بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو گی تا کہ آئندہ انتخابات میں اسے کیش کرایا جا سکے۔ لوگ کہہ رہے ہیں ہماری امداد نہ کرو کم از کم سیلابی پانی ہی نکال دو۔ آج اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس بھی کی ہے اللہ کرے کہ اس پر عمل بھی ہو۔ اس حوالے سے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب، کے پی کے، جی بی اور بلوچستان بھی اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن یہ سب کچھ وزیر اعظم سمیت کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کے بجائے ایک پاکستانی کی طرح کریں۔  
 کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں