افغا نستا ن سے امر یکہ کے انخلا کے بعد……

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 یہ حقیقت کھلی کتا ب کی طر ح عیا ں ہے کہ چالیس سال سے زائد عرصہ سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ نائن الیون سے قبل اور بعد ازاں غیرملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد سے پاکستان کو امن و سلامتی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جرأت مندانہ شرکت کے نتیجے میں پاکستان کو انتہا پسندی، عدم برداشت اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ کھیل کے میدان، سیاحتی مقامات، کاروباری و تجارتی مراکز ویران ہوکر رہ گئے۔ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کے مسائل اور افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے ملک کو منشیات، ناجائز اسلحے کی بہتات اور امن و امان کے حوالے سے سنگین مسائل نے لپیٹ میں لئے رکھا۔ ان تمام مصائب اور ہلاکتوں کو برداشت کیا گیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغان امن کے بغیر خطے کی سلامتی اور پاکستان کے استحکام کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔اور اب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے کی صورت حال نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ جبکہ بہت سے سوال بھی پید اہوئے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور آنے والے چند دنوں میں ہونے جارہا ہے کیا وہ غیرمتوقع ہے؟ یا ہمیں اس ساری صورت حال کا ادراک ہے؟ پاکستان نے افغانستان میں سیاسی حکومت کی تشکیل میں ٹھوس کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ افغان طالبان اور عالمی برادری کے ذمہ دار ممالک کے درمیان تعمیری مذاکرات کی راہ ہموار کی۔ یہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں ہی کا ثمر ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا۔ اگلے مرحلے میں افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ہونا ہے جو فریقین کے درمیان اعتماد میں کمی کے باعث تاحال ممکن نہیں ہو پائے۔ کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے افغانستان میں بدامنی و انتشار کی صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہورہی۔ بے یقینی کی اس صورت حال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارت نے افغانستان میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ امن کی ہر کوشش ان کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپاتی۔ جب تک افغان عوام اور حکومت کو بیرونی سازشوں اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نجات نہیں مل جاتی، خطے میں پائیدار امن کا قیام مشکوک رہے گا۔ یہ بات سو فیصد درست سہی کہ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک، تاریخ، مذہب، ثقافت اور لسانیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ پاکستان کے فوجی ترجمان کی میڈیا بریفنگ سے ایک بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی جب تک اسے یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ پاکستان کے لیے ”گریٹر پختونستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت“ کا مسئلہ ”جوں کا توں“ ہی موجود ہے۔ 
لیکن یہ وقت ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلایا جائے اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جائے۔ پاکستان نے بھی طورخم بارڈر وقتی طور پر ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کیا ہے۔ افغانستان سے بہت گہرائی سے منسلک ہونے اور ایک پالیسی رکھنے کے باوجود، ہم افغانستان میں اُبھرتی ہوئی صورت حال کے لیے کوئی بہت زیادہ تیار نہیں تھے۔ اس کا کچھ اندازہ اس بریفنگ سے بھی ہوتا ہے جو پارلیمنٹ کو دی گئی۔ امریکی انخلا اعلانیہ ہونے کے باوجود حیران کن ہے۔ ریجنل دارالحکومت اس وقت حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ امریکی انخلا کا یوں تیزی سے ہونا کسی کے لیے متوقع نہیں تھا۔ تاجکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کردی ہے اور 20 ہزار نئے دستے اپنی سرحد پر تعینات کردیئے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے تاجک اور ازبک صدر سے بات کی ہے اور دونوں ملکوں کو یقین دلایا ہے کہ روس ان کی مدد کرے گا۔ یہاں پر ایک اور 
رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ امریکہ نے انتہائی چالاکی سے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کیا ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی طالبان سے قطر معاہدے کی صورت میں یہ گارنٹی لے چکا ہے کہ وہ القاعدہ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ اب اگر افغان متحارب باہم دست و گریباں ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جبکہ امریکا نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں استحکام لانے کے لیے ایک ”تعمیری شراکت دار“ بنے جس پر اسلام آباد نے واشنگٹن کو یقین دہائی کرائی ہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں امن اب بھی قابل حصول ہے۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق افغانستان سے غیرملکی افواج کے تیزی سے انخلا، امن مذاکرات میں تعطل اور بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے پاکستان کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو اقتدار کی تقسیم کے انتظامات سے متعلق ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ نامی تھنک ٹینک کی ”پاکستان: افغان امن کی سپورٹ“ نامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغان امن تیز تر ہوتا ہے یا پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے کسی بھی صورت میں اسلام آباد کے کابل اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ چند روز پیشتر وزیراعظم عمران خان اپنے ایک انٹرویو میں بھی امریکہ کو پاکستانی ہوائی اڈے دینے کے بارے میں واضح طور پر انکار کرچکے ہیں۔ جبکہ ایشیا ٹائم کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بگرام بیس خالی کرنے سے پہلے امریکی صدور بارک اوباما اور جارج بش سے ٹیلی فون پر بات کی۔ انہیں افغانستان سے انخلا کے اپنے فیصلے پر اعتماد میں لیا۔ ان سب معاملات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کی جلدی ہے۔ انہیں نتائج کی کوئی پروا نہیں اور وہ دوحہ معاہدے پر اصرار کے بغیر افغانستان سے جارہے ہیں۔ بگرام بیس خالی کرنے سے متعلق اطلاع دینے تک کی زحمت نہیں کی گئی۔ وہ بھی اس حال میں کہ جب وہاں واقع جیل میں ہزاروں طالبان قیدی موجود ہیں۔ یہاں پر شکوک و شبہات کا پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ کیا امریکی جان بوجھ کر افغانستان کو تباہ کن خانہ جنگی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ مفروضہ درست ہے تو پھر پاکستان اس ضمن میں کیا حکمت عملی ترتیب دے گا۔ کیا پاکستان اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے چین، روس اور ایران سے رابطہ کرکے اپنی سفارت کاری کے ذریعے افغان متحارب فریقوں کو مفاہمت پر آمادہ کرنے اور امریکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے ایجنڈے کو عملی شکل دے پائے گا۔ یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ کئی عشروں بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے سامنے ایک سنہری موقع ہے کہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ دیگر ممالک تو اپنے مفادات دیکھیں گے لیکن اصل فیصلہ ان دونوں ممالک کی ”بااثر شخصیات اور گروپوں“ نے کرنا ہے کہ وہ چند عشروں بعد آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں بندوق یا قلم دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان چار دہائیوں سے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے مؤثر کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔ طویل جغرافیائی سرحدیں، مذہبی، سماجی، ثقافتی تعلق اور دفاعی حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ایسے زمینی حقائق ہیں کہ جن کی بنیاد پر پاکستان برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت، سوویت افواج کا انخلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والے غیرسنجیدہ حالات، طالبان کی حکومت سازی، نائن الیون سانحہ اور اتحادی افواج کی جارحانہ آمد سمیت کسی بھی قسم کے حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یا د رکھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں سیاسی استحکام اور بحالی دراصل جنوب مغربی ایشیا ہی نہیں عالمی امن کی بنیادی ضرورت ہے۔