"افواج کا ڈسپلن اتنا کمزور نہیں کہ شہباز گل کے بیان سے اسے نقصان پہنچے"

سورس: File

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام کے مقدمے میں ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے ایسا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکا کہ شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔ شہباز گل کی پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر ضمانت منظور کی جاتی ہے۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس کوئی شواہد نہیں دے سکی کہ شہباز گل نے بیان سے پہلے یا بعد میں کسی افسر یا سپاہی سے رابطہ کیا۔ شہباز گل سے تفتیش مکمل ہو چکی مزید جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ شہباز گل کو مزید جیل میں رکھنا بےسود بلکہ ٹرائل سے پہلے سزا دینے کے مترادف ہو گا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ہر سماعت پر عدالت حاضری یقینی بنانے کے لیے ٹرائل کورٹ شہباز گل کو پابند کر سکتی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج نے 30 اگست کو شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کی، ضمانت مسترد ہونے کے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، شہباز گل کو تھانہ کوہسار میں نو اگست کو درج کیے گئے مقدمہ میں اسی روز گرفتار کیا گیا۔

فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شہباز گل کے خلاف ایف آئی آر میں بغاوت سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں، نجی چینل پر بیان دینے پر ان کے خلاف فوجداری مقدمے کا اندراج کیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق بغاوت پر اکسانے کا جرم نہیں بنتا، وکیل نے کہا کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا جو بدنیتی پر مبنی ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وکیل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ بھی مطمئن ہے کہ پاکستان پینل کوڈ دفعہ 131 کے علاوہ کوئی جرم نہیں بنتا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ تقریر بغاوت کے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، پراسیکیوٹر کے مطابق شہباز گل نے مسلح افواج کے ممبرز کو افسران کے آرڈرز نہ ماننے کا کہا۔ پراسیکیوٹر کے مطابق اس بیان سے شہباز گل بغاوت پر اکسانے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر نہیں بتا سکے کہ شہباز گل نے جرم کی معاونت کے لیے مسلح افواج کے کسی افسر سے رابطہ کیا۔ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان سے اس قسم کے لاپرواہ بیان کی توقع نہیں کیا جا سکتی، پراسیکیوشن ایسی کوئی چیز بھی ریکارڈ پر نہیں لائی کہ مسلح افواج کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہو۔ مسلح افواج کا ڈسپلن اتنا کمزور نہیں کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان سے اسے نقصان پہنچے۔

مصنف کے بارے میں