عمران خان کو قتل کر دیا جائے گا!

عمران خان کو قتل کر دیا جائے گا!

حکمرانی کے تین اصول بہت بنیادی ہیں۔ نمبر ایک عوام کو خوشحال رکھا جائے، تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور معاشرے میں امن قائم رکھا جائے۔ دوسرا اصول ہے کہ عوام کو خوفزدہ رکھا جائے اتنا خوفزدہ کہ انہیں حکمرانوں کے خلاف سوچنے، بولنے اور کچھ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور تیسرا اصول ہے عوام کو دھوکے میں رکھا جائے اور سمجھ ہی نہ آنے دی جائے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔ دکھایا، بتایا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے۔
وطن عزیز میں پہلے اصول پر عمل درآمد تو کبھی نظر نہیں آیا البتہ باقی دو اصولوں کی مثالیں بار بار نظر آتی رہی ہیں۔
مارشل لاء کے بارے تو اگرچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوف کی بنیاد پر حقوق سلب کر کے حکمرانی قائم رکھی جاتی ہے لیکن جمہوریت بھی صرف اور صرف دھوکہ ہی ثابت ہوا ہے۔ خود الیکشن کرانے والے افراد کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں کبھی صاف شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔ جس نظام کی بنیاد ہی بے ایمانی پر رکھی جائے اس کا تنا، شاخیں اور پھول پتے بے ایمانی سے پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ زہر اگر جڑوں میں انڈیلا گیا ہو تو ثمرات کا زہریلا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
عوام کو شاید اس بات کا کم ہی علم ہوتا ہے لیکن حکمران طبقے کی تربیت اور عمل میں فن ِ حکمرانی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ایسے تمام عوامل اور فیصلوں میں حکمرانی کو قائم، مضبوط اور دیرپا رکھنے کے لیے خاص حکمت عملیوں اور طریقہ ہائے کار کو آزمایا جاتا ہے جن میں جھوٹ اور مسلسل جھوٹ بہت اہم فن مانا جاتا ہے۔
گزشتہ بارہ مہینوں میں پاکستان کے اندر کھیلے جانے والے کھیل نے حکمران طبقے کو جس طرح ننگا کیا ہے پہلے کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو کبھی نظر نہیں آیا اور خاص طور پر پچھلے دنوں عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیا جانے والا طاقت اور اس کے جواب میں مزاحمت کا مظاہرہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاسی باب کا اضافہ کر گیا۔
حکمران طبقہ تو خیر طاقت کے اس سے بڑے اور کہیں زیادہ بھیانک مظاہرے کر چکا ہے جس میں ماڈل ٹاؤن سانحہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا لیکن عوام کی طرف سے مزاحمت کا یہ انداز پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ میرے تجزیہ کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں جس میں پہلی وجہ سسٹم پر سے عوام کے اعتماد کا مکمل طور پر اٹھ جانا اور عمران خان کی جد و جہد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آنا اولین ہے۔ اور اس بات کا حکمران طبقے کو بھی پورا پورا احساس ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ملک پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ عمران خان نہ تو ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سسٹم کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے نہ کسی متبادل نظریے پر کھڑا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج ثابت ہو لیکن پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کے لیے عمران خان موت کا فرشتہ ضرور بن چکا ہے اور ان کی اُڑ چکی کچی پکی نیندوں میں ڈراؤنے خوابوں کی طرح بار بار آ کے ان کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔
پولیس اور عوام آمنے سامنے آ تو جاتے ہیں لیکن خود پولیس افسران کے اندر بھی ایک خوف پنجے گاڑ کے بیٹھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو عوام کی طرف سے برسائے جانے والے پتھروں سے ڈر کے دوڑتے دوڑتے پولیس والے واپس نفری کی صفوں میں آنے کے بجائے گھروں کو ہی نہ نکل جائیں اور وہاں سے استعفے یا شدید نوعیت کی مصروفیت کے باعث چھٹی کی درخواستیں ہی نہ بھیجنا شروع کر دیں۔
یہی احساس مختلف اداروں کے با اثر افراد کو بھی ہو چکا ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دراصل پاکستانی ادارے ہیں اور اس وقت ہر طرح کے سروے بتا رہے ہیں کہ گلی محلے، شہر بازار اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے عمران خان سے محبت کرنے والے عوام سے بھرے پڑے ہیں۔ ابھی تک کے ملکی حالات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر کلاس کو اس بات سے دور کا بھی واسطہ نہیں کہ ملک کمزور ہوتا ہے یا تباہ، عوام جیتے ہیں یا مرتے۔ ان کو صرف اور صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ حکمران طبقے کو تو شاید اس بات کا بھی احساس نہیں کہ پاکستانی عوام ان کے عزائم پوری طرح جان چکے ہیں۔ عوامی شعور اور آگہی کا یہ عالم بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے بروٹس کا ایکسپوز ہونا کوئی نیا نہیں لیکن یہ بات بھی عمران خان کے حق میں چلی گئی ہے کہ کس طرح آستینوں کو جھاڑنے کے باوجود کچھ نہ کچھ اندر رہ ہی جاتا ہے۔ اگرچہ قانون و آئین کی پاسداری ہر باشعور انسان کا طرہئ امتیاز ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں بنائے جانے والے مقدمات، ریاستی طاقت کا ذاتی استعمال اور پولیس کسٹڈی میں کیے جانے والے غیر انسانی تشدد کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ کرنا عمران خان کا حق اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ مخالف لابیاں لیڈرز کے ارد گرد یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے انفلوئنسر داخل کیے رکھتے ہیں تاکہ لیڈر سے غلط فیصلے کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ صدر عارف علوی کو عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارٹی پوزیشن کے خلاف دباؤ ڈالنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے لیے لائن کہیں اور سے آئی ہے۔ عمران خان کے انتہائی قریبی حلقوں سے یہ پریشر ڈالا جا رہا ہے اگر یہ مسلسل رہا تو کچھ بعید نہیں کہ عمران خان کو خاکم بدہن الیکشن سے پہلے قتل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن مجھے جو کچھ لگ رہا ہے کہ اب وقت اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ ایسی حرکت خود حکمران طبقے کے موجودہ افراد کے تابوتوں میں آخری کیل ثابت ہو گی۔حکمرانی کے تین اصول بہت بنیادی ہیں۔ نمبر ایک عوام کو خوشحال رکھا جائے، تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور معاشرے میں امن قائم رکھا جائے۔ دوسرا اصول ہے کہ عوام کو خوفزدہ رکھا جائے اتنا خوفزدہ کہ انہیں حکمرانوں کے خلاف سوچنے، بولنے اور کچھ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور تیسرا اصول ہے عوام کو دھوکے میں رکھا جائے اور سمجھ ہی نہ آنے دی جائے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔ دکھایا، بتایا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے۔
وطن عزیز میں پہلے اصول پر عمل درآمد تو کبھی نظر نہیں آیا البتہ باقی دو اصولوں کی مثالیں بار بار نظر آتی رہی ہیں۔
مارشل لاء کے بارے تو اگرچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوف کی بنیاد پر حقوق سلب کر کے حکمرانی قائم رکھی جاتی ہے لیکن جمہوریت بھی صرف اور صرف دھوکہ ہی ثابت ہوا ہے۔ خود الیکشن کرانے والے افراد کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں کبھی صاف شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔ جس نظام کی بنیاد ہی بے ایمانی پر رکھی جائے اس کا تنا، شاخیں اور پھول پتے بے ایمانی سے پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ زہر اگر جڑوں میں انڈیلا گیا ہو تو ثمرات کا زہریلا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
عوام کو شاید اس بات کا کم ہی علم ہوتا ہے لیکن حکمران طبقے کی تربیت اور عمل میں فن ِ حکمرانی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ایسے تمام عوامل اور فیصلوں میں حکمرانی کو قائم، مضبوط اور دیرپا رکھنے کے لیے خاص حکمت عملیوں اور طریقہ ہائے کار کو آزمایا جاتا ہے جن میں جھوٹ اور مسلسل جھوٹ بہت اہم فن مانا جاتا ہے۔
گزشتہ بارہ مہینوں میں پاکستان کے اندر کھیلے جانے والے کھیل نے حکمران طبقے کو جس طرح ننگا کیا ہے پہلے کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو کبھی نظر نہیں آیا اور خاص طور پر پچھلے دنوں عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیا جانے والا طاقت اور اس کے جواب میں مزاحمت کا مظاہرہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاسی باب کا اضافہ کر گیا۔
حکمران طبقہ تو خیر طاقت کے اس سے بڑے اور کہیں زیادہ بھیانک مظاہرے کر چکا ہے جس میں ماڈل ٹاؤن سانحہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا لیکن عوام کی طرف سے مزاحمت کا یہ انداز پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ میرے تجزیہ کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں جس میں پہلی وجہ سسٹم پر سے عوام کے اعتماد کا مکمل طور پر اٹھ جانا اور عمران خان کی جد و جہد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آنا اولین ہے۔ اور اس بات کا حکمران طبقے کو بھی پورا پورا احساس ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ملک پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ عمران خان نہ تو ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سسٹم کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے نہ کسی متبادل نظریے پر کھڑا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج ثابت ہو لیکن پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کے لیے عمران خان موت کا فرشتہ ضرور بن چکا ہے اور ان کی اُڑ چکی کچی پکی نیندوں میں ڈراؤنے خوابوں کی طرح بار بار آ کے ان کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔
پولیس اور عوام آمنے سامنے آ تو جاتے ہیں لیکن خود پولیس افسران کے اندر بھی ایک خوف پنجے گاڑ کے بیٹھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو عوام کی طرف سے برسائے جانے والے پتھروں سے ڈر کے دوڑتے دوڑتے پولیس والے واپس نفری کی صفوں میں آنے کے بجائے گھروں کو ہی نہ نکل جائیں اور وہاں سے استعفے یا شدید نوعیت کی مصروفیت کے باعث چھٹی کی درخواستیں ہی نہ بھیجنا شروع کر دیں۔
یہی احساس مختلف اداروں کے با اثر افراد کو بھی ہو چکا ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دراصل پاکستانی ادارے ہیں اور اس وقت ہر طرح کے سروے بتا رہے ہیں کہ گلی محلے، شہر بازار اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے عمران خان سے محبت کرنے والے عوام سے بھرے پڑے ہیں۔ ابھی تک کے ملکی حالات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر کلاس کو اس بات سے دور کا بھی واسطہ نہیں کہ ملک کمزور ہوتا ہے یا تباہ، عوام جیتے ہیں یا مرتے۔ ان کو صرف اور صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ حکمران طبقے کو تو شاید اس بات کا بھی احساس نہیں کہ پاکستانی عوام ان کے عزائم پوری طرح جان چکے ہیں۔ عوامی شعور اور آگہی کا یہ عالم بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے بروٹس کا ایکسپوز ہونا کوئی نیا نہیں لیکن یہ بات بھی عمران خان کے حق میں چلی گئی ہے کہ کس طرح آستینوں کو جھاڑنے کے باوجود کچھ نہ کچھ اندر رہ ہی جاتا ہے۔ اگرچہ قانون و آئین کی پاسداری ہر باشعور انسان کا طرہئ امتیاز ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں بنائے جانے والے مقدمات، ریاستی طاقت کا ذاتی استعمال اور پولیس کسٹڈی میں کیے جانے والے غیر انسانی تشدد کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ کرنا عمران خان کا حق اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ مخالف لابیاں لیڈرز کے ارد گرد یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے انفلوئنسر داخل کیے رکھتے ہیں تاکہ لیڈر سے غلط فیصلے کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ صدر عارف علوی کو عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارٹی پوزیشن کے خلاف دباؤ ڈالنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے لیے لائن کہیں اور سے آئی ہے۔ عمران خان کے انتہائی قریبی حلقوں سے یہ پریشر ڈالا جا رہا ہے اگر یہ مسلسل رہا تو کچھ بعید نہیں کہ عمران خان کو خاکم بدہن الیکشن سے پہلے قتل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن مجھے جو کچھ لگ رہا ہے کہ اب وقت اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ ایسی حرکت خود حکمران طبقے کے موجودہ افراد کے تابوتوں میں آخری کیل ثابت ہو گی۔حکمرانی کے تین اصول بہت بنیادی ہیں۔ نمبر ایک عوام کو خوشحال رکھا جائے، تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور معاشرے میں امن قائم رکھا جائے۔ دوسرا اصول ہے کہ عوام کو خوفزدہ رکھا جائے اتنا خوفزدہ کہ انہیں حکمرانوں کے خلاف سوچنے، بولنے اور کچھ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور تیسرا اصول ہے عوام کو دھوکے میں رکھا جائے اور سمجھ ہی نہ آنے دی جائے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔ دکھایا، بتایا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے۔
وطن عزیز میں پہلے اصول پر عمل درآمد تو کبھی نظر نہیں آیا البتہ باقی دو اصولوں کی مثالیں بار بار نظر آتی رہی ہیں۔
مارشل لاء کے بارے تو اگرچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوف کی بنیاد پر حقوق سلب کر کے حکمرانی قائم رکھی جاتی ہے لیکن جمہوریت بھی صرف اور صرف دھوکہ ہی ثابت ہوا ہے۔ خود الیکشن کرانے والے افراد کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں کبھی صاف شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔ جس نظام کی بنیاد ہی بے ایمانی پر رکھی جائے اس کا تنا، شاخیں اور پھول پتے بے ایمانی سے پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ زہر اگر جڑوں میں انڈیلا گیا ہو تو ثمرات کا زہریلا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
عوام کو شاید اس بات کا کم ہی علم ہوتا ہے لیکن حکمران طبقے کی تربیت اور عمل میں فن ِ حکمرانی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ایسے تمام عوامل اور فیصلوں میں حکمرانی کو قائم، مضبوط اور دیرپا رکھنے کے لیے خاص حکمت عملیوں اور طریقہ ہائے کار کو آزمایا جاتا ہے جن میں جھوٹ اور مسلسل جھوٹ بہت اہم فن مانا جاتا ہے۔
گزشتہ بارہ مہینوں میں پاکستان کے اندر کھیلے جانے والے کھیل نے حکمران طبقے کو جس طرح ننگا کیا ہے پہلے کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو کبھی نظر نہیں آیا اور خاص طور پر پچھلے دنوں عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیا جانے والا طاقت اور اس کے جواب میں مزاحمت کا مظاہرہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاسی باب کا اضافہ کر گیا۔
حکمران طبقہ تو خیر طاقت کے اس سے بڑے اور کہیں زیادہ بھیانک مظاہرے کر چکا ہے جس میں ماڈل ٹاؤن سانحہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا لیکن عوام کی طرف سے مزاحمت کا یہ انداز پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ میرے تجزیہ کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں جس میں پہلی وجہ سسٹم پر سے عوام کے اعتماد کا مکمل طور پر اٹھ جانا اور عمران خان کی جد و جہد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آنا اولین ہے۔ اور اس بات کا حکمران طبقے کو بھی پورا پورا احساس ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ملک پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ عمران خان نہ تو ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سسٹم کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے نہ کسی متبادل نظریے پر کھڑا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج ثابت ہو لیکن پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کے لیے عمران خان موت کا فرشتہ ضرور بن چکا ہے اور ان کی اُڑ چکی کچی پکی نیندوں میں ڈراؤنے خوابوں کی طرح بار بار آ کے ان کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔
پولیس اور عوام آمنے سامنے آ تو جاتے ہیں لیکن خود پولیس افسران کے اندر بھی ایک خوف پنجے گاڑ کے بیٹھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو عوام کی طرف سے برسائے جانے والے پتھروں سے ڈر کے دوڑتے دوڑتے پولیس والے واپس نفری کی صفوں میں آنے کے بجائے گھروں کو ہی نہ نکل جائیں اور وہاں سے استعفے یا شدید نوعیت کی مصروفیت کے باعث چھٹی کی درخواستیں ہی نہ بھیجنا شروع کر دیں۔
یہی احساس مختلف اداروں کے با اثر افراد کو بھی ہو چکا ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دراصل پاکستانی ادارے ہیں اور اس وقت ہر طرح کے سروے بتا رہے ہیں کہ گلی محلے، شہر بازار اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے عمران خان سے محبت کرنے والے عوام سے بھرے پڑے ہیں۔ ابھی تک کے ملکی حالات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر کلاس کو اس بات سے دور کا بھی واسطہ نہیں کہ ملک کمزور ہوتا ہے یا تباہ، عوام جیتے ہیں یا مرتے۔ ان کو صرف اور صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ حکمران طبقے کو تو شاید اس بات کا بھی احساس نہیں کہ پاکستانی عوام ان کے عزائم پوری طرح جان چکے ہیں۔ عوامی شعور اور آگہی کا یہ عالم بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے بروٹس کا ایکسپوز ہونا کوئی نیا نہیں لیکن یہ بات بھی عمران خان کے حق میں چلی گئی ہے کہ کس طرح آستینوں کو جھاڑنے کے باوجود کچھ نہ کچھ اندر رہ ہی جاتا ہے۔ اگرچہ قانون و آئین کی پاسداری ہر باشعور انسان کا طرہئ امتیاز ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں بنائے جانے والے مقدمات، ریاستی طاقت کا ذاتی استعمال اور پولیس کسٹڈی میں کیے جانے والے غیر انسانی تشدد کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ کرنا عمران خان کا حق اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ مخالف لابیاں لیڈرز کے ارد گرد یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے انفلوئنسر داخل کیے رکھتے ہیں تاکہ لیڈر سے غلط فیصلے کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ صدر عارف علوی کو عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارٹی پوزیشن کے خلاف دباؤ ڈالنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے لیے لائن کہیں اور سے آئی ہے۔ عمران خان کے انتہائی قریبی حلقوں سے یہ پریشر ڈالا جا رہا ہے اگر یہ مسلسل رہا تو کچھ بعید نہیں کہ عمران خان کو خاکم بدہن الیکشن سے پہلے قتل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن مجھے جو کچھ لگ رہا ہے کہ اب وقت اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ ایسی حرکت خود حکمران طبقے کے موجودہ افراد کے تابوتوں میں آخری کیل ثابت ہو گی۔حکمرانی کے تین اصول بہت بنیادی ہیں۔ نمبر ایک عوام کو خوشحال رکھا جائے، تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور معاشرے میں امن قائم رکھا جائے۔ دوسرا اصول ہے کہ عوام کو خوفزدہ رکھا جائے اتنا خوفزدہ کہ انہیں حکمرانوں کے خلاف سوچنے، بولنے اور کچھ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور تیسرا اصول ہے عوام کو دھوکے میں رکھا جائے اور سمجھ ہی نہ آنے دی جائے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔ دکھایا، بتایا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے۔
وطن عزیز میں پہلے اصول پر عمل درآمد تو کبھی نظر نہیں آیا البتہ باقی دو اصولوں کی مثالیں بار بار نظر آتی رہی ہیں۔
مارشل لاء کے بارے تو اگرچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوف کی بنیاد پر حقوق سلب کر کے حکمرانی قائم رکھی جاتی ہے لیکن جمہوریت بھی صرف اور صرف دھوکہ ہی ثابت ہوا ہے۔ خود الیکشن کرانے والے افراد کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں کبھی صاف شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔ جس نظام کی بنیاد ہی بے ایمانی پر رکھی جائے اس کا تنا، شاخیں اور پھول پتے بے ایمانی سے پاک کیسے ہو سکتے ہیں۔ زہر اگر جڑوں میں انڈیلا گیا ہو تو ثمرات کا زہریلا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
عوام کو شاید اس بات کا کم ہی علم ہوتا ہے لیکن حکمران طبقے کی تربیت اور عمل میں فن ِ حکمرانی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ایسے تمام عوامل اور فیصلوں میں حکمرانی کو قائم، مضبوط اور دیرپا رکھنے کے لیے خاص حکمت عملیوں اور طریقہ ہائے کار کو آزمایا جاتا ہے جن میں جھوٹ اور مسلسل جھوٹ بہت اہم فن مانا جاتا ہے۔
گزشتہ بارہ مہینوں میں پاکستان کے اندر کھیلے جانے والے کھیل نے حکمران طبقے کو جس طرح ننگا کیا ہے پہلے کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو کبھی نظر نہیں آیا اور خاص طور پر پچھلے دنوں عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیا جانے والا طاقت اور اس کے جواب میں مزاحمت کا مظاہرہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاسی باب کا اضافہ کر گیا۔
حکمران طبقہ تو خیر طاقت کے اس سے بڑے اور کہیں زیادہ بھیانک مظاہرے کر چکا ہے جس میں ماڈل ٹاؤن سانحہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا لیکن عوام کی طرف سے مزاحمت کا یہ انداز پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ میرے تجزیہ کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں جس میں پہلی وجہ سسٹم پر سے عوام کے اعتماد کا مکمل طور پر اٹھ جانا اور عمران خان کی جد و جہد پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آنا اولین ہے۔ اور اس بات کا حکمران طبقے کو بھی پورا پورا احساس ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ملک پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ عمران خان نہ تو ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سسٹم کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے نہ کسی متبادل نظریے پر کھڑا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج ثابت ہو لیکن پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کے لیے عمران خان موت کا فرشتہ ضرور بن چکا ہے اور ان کی اُڑ چکی کچی پکی نیندوں میں ڈراؤنے خوابوں کی طرح بار بار آ کے ان کا جینا حرام کیے ہوئے ہے۔
پولیس اور عوام آمنے سامنے آ تو جاتے ہیں لیکن خود پولیس افسران کے اندر بھی ایک خوف پنجے گاڑ کے بیٹھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو عوام کی طرف سے برسائے جانے والے پتھروں سے ڈر کے دوڑتے دوڑتے پولیس والے واپس نفری کی صفوں میں آنے کے بجائے گھروں کو ہی نہ نکل جائیں اور وہاں سے استعفے یا شدید نوعیت کی مصروفیت کے باعث چھٹی کی درخواستیں ہی نہ بھیجنا شروع کر دیں۔
یہی احساس مختلف اداروں کے با اثر افراد کو بھی ہو چکا ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دراصل پاکستانی ادارے ہیں اور اس وقت ہر طرح کے سروے بتا رہے ہیں کہ گلی محلے، شہر بازار اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے عمران خان سے محبت کرنے والے عوام سے بھرے پڑے ہیں۔ ابھی تک کے ملکی حالات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر کلاس کو اس بات سے دور کا بھی واسطہ نہیں کہ ملک کمزور ہوتا ہے یا تباہ، عوام جیتے ہیں یا مرتے۔ ان کو صرف اور صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ حکمران طبقے کو تو شاید اس بات کا بھی احساس نہیں کہ پاکستانی عوام ان کے عزائم پوری طرح جان چکے ہیں۔ عوامی شعور اور آگہی کا یہ عالم بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے بروٹس کا ایکسپوز ہونا کوئی نیا نہیں لیکن یہ بات بھی عمران خان کے حق میں چلی گئی ہے کہ کس طرح آستینوں کو جھاڑنے کے باوجود کچھ نہ کچھ اندر رہ ہی جاتا ہے۔ اگرچہ قانون و آئین کی پاسداری ہر باشعور انسان کا طرہئ امتیاز ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں بنائے جانے والے مقدمات، ریاستی طاقت کا ذاتی استعمال اور پولیس کسٹڈی میں کیے جانے والے غیر انسانی تشدد کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ کرنا عمران خان کا حق اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ مخالف لابیاں لیڈرز کے ارد گرد یاسمین راشد اور اسد عمر جیسے انفلوئنسر داخل کیے رکھتے ہیں تاکہ لیڈر سے غلط فیصلے کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ صدر عارف علوی کو عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارٹی پوزیشن کے خلاف دباؤ ڈالنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے لیے لائن کہیں اور سے آئی ہے۔ عمران خان کے انتہائی قریبی حلقوں سے یہ پریشر ڈالا جا رہا ہے اگر یہ مسلسل رہا تو کچھ بعید نہیں کہ عمران خان کو خاکم بدہن الیکشن سے پہلے قتل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن مجھے جو کچھ لگ رہا ہے کہ اب وقت اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ ایسی حرکت خود حکمران طبقے کے موجودہ افراد کے تابوتوں میں آخری کیل ثابت ہو گی۔