پاکستان کے ز رعی مسا ئل

Dr Ibrahim Mughal, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

1960کی د ہائی کے دنو ں میں ہم اپنی درسی کتابو ں میں پڑھا کر تے کہ اگر مغربی پا کستان کو چاندی کا دیس اور مشر قی پا کستان کو سونے کا دیس کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا۔ سن اکہتر میں مشر قی پا کستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ لہٰذ ا اس کے ذ کر کو نظر اندا زکر تے ہو ئے بتاتا چلوں کہ تب مغر بی پاکستان یعنی اب پا کستان کو چا ندی کا دیس کہنے کی وجہ یہا ں دنیا کی اعلیٰ تر ین اور انتہا ئی وا فر مقد ار میں اگنے وا لی کپا س کی پید ا وا ر تھی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارے مو قع پر ست اور خو د غر ض جا گیر دا روں  اور وڈیر وں نے کر پٹ بیوروکر یسی کی مد د سے کپا س کی جگہ گنے کی بو ائی شروع کر دی۔ گنے کی پیداوار سے ان کی شوگر ملو ں کو اندھا فا ئد ہ ہو ا سو ہوا، مگر اس نے ہماری بہترین زرعی زمین کو بنجر کر کے رکھ دیا کیو ں کہ گنے کی فصل زمین سے سب پا نی چو س لیتی ہے۔ با ت کو آگے بڑ ھا تے ہو ئے اگر ملک کی زراعت کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو با ت کچھ یو ں ہے کہ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 23.77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔ حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی 75 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ یہ شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال (Raw Materials) کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ (exchanges) کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتے ہیں۔ ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہورہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہوجاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیاء کو شدید مہنگا کردیا ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے پر ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہورہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورت حال مکمل طور پر ٹھپ ہوجائے گی۔ زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خور اک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جارہا ہے۔ 
اس وقت ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 18 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں 20 فیصد انڈسٹری اور 60 فیصد سروسز کا حصہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پانی ہے۔ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کاشتکاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ہر آنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہورہی ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔ہماری کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت 
غیرتعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ انہیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسان بہتر پیداوار حاصل کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے کسانوں اور کاشتکاروں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور زراعت کے شعبہ کی ترقی کے سلسلہ میں بہتر اقدامات کیے جائیں اور سیلاب کی صورت حال کے پیش نظر ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس سے ان علاقوں کو محفوظ رکھا جاسکے جو زیر کاشت ہیں۔ ڈیم کا بننا ہمارے لیے اس وقت اشد ضروری ہے کیونکہ اس سے سیلاب کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے اور پانی کو سٹور کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے اور اس کے گونا گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ یوں پاکستان خوش حال ہوگا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنرمند ہے۔ کمی صرف باہمت اور پُر عزم قیادت کی ہے جو دیانتدار ہو اور پاکستان سے مخلص بھی ہو۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر ٹیکس عائد ہے۔ حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔ اس لیے یہ شعبہ حکومتی عدم دلچسپی کا شکارہے۔ حکومت کو زراعت کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارا ملک زراعت کے شعبے میں جب ہی ترقی کرسکتا ہے جب حکومت خود نیک نیتی سے زرعی شعبے کی ترقی پر توجہ دے اور زرعی ترقی کے لیے اقدامات کرے۔مگر یہا ں کے دولت کے پجا ری مگر مچھو ں کے بہت لمبے ہیں۔ انہیں ہما ری کر پٹ بیو روکر یسی کی تا ئید حا صل ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری زرعی ز مینو ں کو جس انتہا ئی خطر نا ک مسئلے کا سا منا ہے وہ یہ ہے کہ ان زرخیز زمینو ں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ زیا دہ دور جا نے کی ضر ورت نہیں، آ پ صرف چکو ال کے نو احی علا قوں سے اگر اسلام آ با دلاہو ر کی مو ٹر وے کی جانب سفر کر یں تو آ پ دیکھیں گے کس ظلم سے وہا ں کی ز رعی ز مینو ں پہ پے در پے ہاؤسنگ سو سائٹیز تعمیر ہو رہی ہیں۔ اور یہ سب کر نے وا لے حکمر ا ن جما عت کے وہی کر تا دھرتا ہیں جن کے نا م آ پ آ ئے دن اخبا رو ں میں پڑھتے رہتے ہیں۔