فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت ، پنجاب حکومت نے بڑا اعلان کر دیا

فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت ، پنجاب حکومت نے بڑا اعلان کر دیا
کیپشن: image by facebook

لاہور:وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت منانے کا اعلان کر دیا ہے ، لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ثقافتی حلقوں کی جانب سے بسنت منانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ، اب بسنت کو فروری کے دوسرے ہفتے میں منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لاہور کی سول سوسائٹی اور شہریوں کی بڑی تعداد لاہور سمیات پنجاب میں ثقافتی سرگرمیوں کو عروج دینے کے لیے بسنت منانے کا مطالبہ کر رہی ہے جس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔بسنت کے دوران سیکیورٹی انتظامات اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تجاویز مرتب کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرائے گی ۔

ایک وقت تھا جب ماہِ فروری شروع ہوتے ہی زندہ دلانِ لاہور موسم بہار کا استقبال بسنت منا کر کرتے تھے۔ شہرِ لاہور کی سڑکوں کو دلہن کی طرح رنگ برنگی پتنگوں سے سجایا جاتا تھا۔ سڑکوں کی درمیانی کیاریاں گیندے کے بسنتی پھولوں سے راہگیروں کو آمدِ بہار کی نوید سناتی تھیں۔ نئے سال کے پہلے مہینے سے ہی نیلا آسمان دیدہ زیب رنگوں کی پتنگوں سے سجنے لگتا تھا۔ ہر اتوار کے اتوار فضا بوکاٹا اور آئی بُو کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ ہوٹلز، ریسٹورنٹس، پارکس اور میدانوں میں بسنت میلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔

شہر کی سڑکوں کے کناروں پر ڈور ساز اڈّے لگائے ڈوریں تیار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ گلی محلے کی دکانیں بسنتی سیزن کو کیش کروانے کے لیے اضافی کاروبار کرتے ہوئے پتنگیں بھی بیچا کرتی تھیں ،  کیٹرنگ والوں کے پاس گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

اندرونِ لاہور کی چھتوں کی ایڈوانس بکنگ مہینوں پہلے سے ہی شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ لوگ گاڑی کی ڈگیاں بھرے اور موٹر سائیکل سوّار گڈّے اور پریاں تھامے سڑکوں پر جاتے دکھائی دیتے تھے۔عید کی چاند رات کی طرح بسنت کی چاند رات بھی جوشیلے لاہوریوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی۔ ہفتے کی شام کو شروع ہونے والی بسنت اتوار کو بعد از مغرب ختم ہوتی تھی۔

مگر پھر وقت آیا جب میڈیا پر خطرناک ڈور کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہونے لگیں۔ شام کے اوقات میں چلنے والے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام زہریلی ڈور کے ہاتھوں ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانے لگے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بسنت کو ہندوانہ تہوار گردانتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دینے لگے۔

اس طرح پوری دنیا میں مشہور لاہوری بسنت کو جلنے والوں کی نظر لگ گئی۔ حکومت نے اموات کا سبب بنے والی خطرناک ڈور پر پابندی لگانے کے بجائے بسنت پر ہی پابندی لگا دی۔