حکومت کو مشورہ مفت

حکومت کو مشورہ مفت

حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کر کے اسے پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے، اور ساتھ یہ مشورہ دیا ہے کہ عوام پٹرول کم استعمال کریں ،جیسے اس سے پہلے حکومتی وزراء آٹا،چینی سمیت دیگر اشیا کے بارے میں عوام کو کہہ چکے ہیں کے مہنگائی ہے تو کم استعمال کریں، ویسے بھی چینی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، تو ایک مشورہ میں بھی حکومت کو مفت دینا چاہتا ہوں کہ آئے روز قیمتوں میں اضافے کی بجائے وہ ایک بار ہی جتنا وہ سمجھتے ہیں ان کے دور حکومت میں پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوں گی کر دیں کیونکہ جب وہ دو روپے ،پانچ روپے لٹرپٹرول مہنگا کرتے تھے تو تب بھی یہی بیانات اپوزیشن کی جانب سے دیے جاتے تھے،اب 12روپے مہنگا کیا ہے تو پھر بھی وہی بیانات ہیں ،میڈیا میں بھی وہی روایتی خبریں اور وہ ہی عوام کا رونا دھونا۔اس لیے حکومت چاہے تو آج ہی پٹرول تین سو روپے لٹر کر دے زیاہ سے زیادہ کیا ہو گا ،اپوزیشن رہنما روایتی بیانات ہی دیں گے، میڈیا میں کچھ ٹاک شو ہو جائیں گے اور عوام غصے کا اظہار کریں گے تو اس کی بھلا حکومت کو کیا پروا۔اس لیے بہتر نہیں کے چند دن بعد اپوزیشن ،میڈیااور عوام کو یہ موقع فراہم کرنے کی بجائے کہ وہ حکومت پر تنقید کریں ،ایک بار ہی جتنا مہنگا کرنا ہے کر دیا جائے تاکہ انہوں نے جو دل کی بھڑاس حکومت کو برا بھلا کہ کر نکالنی ہے وہ نکال لیں ۔اس کا فائدہ حکومت کو یہ ہو گا کہ وزراء جو اپنی توانائیاں جوابات دینے میں ضائع کررہے ہیں اس کی بجائے کوئی تعمیری کام کریں گے ۔
 حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام کی کوئی پروا نہیں ہے ۔دونوں عوام کا نام لے کر اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں ،وزراء (ن)لیگ میں سے(ش)لیگ نکال رہے ہیں تو اپوزیشن وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالنے کی بات کر رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں خاموش معاہدہ ہے کہ عوامی معاملے پر حکومت جو مرضی کرے اپوزیشن روایتی بیانات سے آگے نہیں جائے گی ۔اشرافیہ اپنے معاملات پر ایک ہے، یہ اپنی مراعات کے اضافے پر ایک ہو جاتے ہیں۔کیا اپوزیشن اسمبلی میں یہ بل لے کر آئے گی کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مفت پٹرول کی سہولت کو ختم کر دیا جائے ،ارکان اسمبلی تنخواہ کے علاوہ کوئی مراعات نہیں لیں گے ۔ایسا یہ ہر گز نہیں کریں گے، صرف بیانات دیں گے ۔ وزراء کے بیانات سن کر تو شرم آتی ہے کہ کیسے عوام کی تذلیل اور تضحیک کرتے ہیں ۔آپ اخبارات پڑھیں تو جہاں مہنگائی کی خبریں روزانہ کی بنیاد پر شائع ہو رہی ہوتی ہیں وہاں پر حکومتی پارٹی کے رہنماوں کے بیانات ہوتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کیا ایسے بیانات دے کر وہ شاہ کو خوش کرتے ہیں یا عوام کی غربت کا مذاق اڑاتے ہیں ،کہتے ہیںپاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے تو جب کپتان بجلی کے بل جلا کر سول نافرمانی کی بات کر رہے تھے تو کیا اس وقت پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک تھا ؟آج تو بجلی کا دو سو سے نیچے کے یونٹ بھی 30روپے کا ہے، تو کیا یہ سب سے سستا ملک ہے؟ یورپ اور امریکہ کی بات کرنے والے فی کس آمدنی کی بھی بات کیا کریں ،یورپ میں نو پاونڈ فی گھنٹہ ملتے ہیں پاکستان میں فی گھنٹہ تو صرف نعرے اور دلاسے ہی مل سکتے ہیں اور جو سوشل میڈیا کے ارسطو بنے ہوئے ہیں، امریکہ اور یورپ میں بیٹھ کر بتا تے ہیں وہاں مہنگائی پاکستان سے بھی زیادہ ہے تو ان لوگوں کو مشورہ ہے، وطن واپس آ جائیں کیوں ملک اور رشتے داروں سے دور مہنگے ممالک میں زندگی گذار کر تکلیف اٹھا رہے ہیں ،اپنے سستے ملک واپس آئیں اور زندگی کو آسان بنائیں ۔
تحریک انصاف کی حکومت میں ڈالر اور پٹرول اپنی بلند ترین سطح پر ہیں ۔ایک ڈالر مہنگا ہونے سے کتنی مہنگائی ہوتی ہے، کپتان کے ان بیانات سمیت دیگر کو دہرانے کی ضرورت نہیں وہ سب کو یاد ہیں ۔کپتان کی سب باتیں صرف دعوے اور نعرے ہی نکلیں۔گراونڈ کے باہر بیٹھ کر تنقید کرنے اورمیدان میں کھیلنے میں بڑا فرق ہے ۔مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ خود اعتراف کرتے ہیں پر تمام ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ شروع میں تو ان کی یہ کوشش کامیاب رہی پر اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ ساڑھے تین سال بعد آپ نے کیا کیا ۔اب تو ان کے اتحادی بھی کہ رہے ہیں کہ عوام کو ریلیف فراہم کریں ورنہ حالات کو سنھبالنا مشکل ہو جائے گا ۔سیاسی لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جانا ہے ۔کیا وہ یہ بیانیہ لے کر عوام میں جائیں گے کہ پچھلی حکومتیں چور تھیں ،یہاں تو جو آیا اس نے پچھلی حکومتوں کو چور کہا ،جمہوری دور والوں نے کہا کہ آمریت نے نقصان پہنچایا ہے تو انہوں نے کہا کہ جمہوری لوگ کرپٹ ہیں ۔کیا عوام کو امریکہ اور یورپ کی مہنگائی سے موازانہ کے کے مطمئن کریں گے تو یقین رکھیں کے غریب آدمی کا پیٹ جھوٹی تسلیوں سے نہیں بھرتا وہ پوچھتے ہیں ہر بار ان سے ہی قربانی کیوں مانگی جاتی ہے وہ تو جب سے پاکستان بنا ہے قربانی دیتے آ رہے ہیں اور اس بوجھ کو بھی اٹھا رہے ہیں جس کے وہ ذمہ دار نہیں ،حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کا بوجھ کب تک عوام اٹھائیں گے اب تو غریب کے پاس قربانی کے نام پر جان دینے کے سوا کچھ نہیں بچا اور وہ بھی دے رہے ہیں ،آئے روز خبریں آتی ہیں کہ غربت کی وجہ سے کسی نے خود کشی کر لی ،والدین بچے بیچ رہے ہیں ۔حکمران جن غریبوں سے قربانی مانگتے ہیں وہ بتائیں ان کو دیا کیا ہے ۔حکمران عوام کو انسان سمجھیں انسان سے کم درجہ کی چیز نہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے عوام کو ہی اپوزیشن سمجھ لیا ہے اور اسے ہی رگڑا لگا رہی ہے ۔

مصنف کے بارے میں