من مانیاں

من مانیاں

ہر روز ہم جب بھی نیوز چینل دیکھتے ہیں تو کسی نہ کسی وزیر کی پریس کانفرنس ہو رہی ہوتی ہے یا کسی سیاسی جماعت کا سربراہ قوم سے خطاب کر رہا ہوتا ہے اور ساری قوم اُن کی تقلید کر رہی ہوتی ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح،ایک روز ایک صاحب سڑک پر کچھ تلاش کر رہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا صاحب آپ کیا تلاش کر رہے ہیں ؟تو اُس شخص نے جواب دیا کہ میری جیب سے پیسے گر گئے ہیں انہیں تلاش کر رہا ہوں۔اُس شخص کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے کچھ بھلے مانس لوگ بھی اُس کے ساتھ مل کر پیسے تلاش کرنے لگ گئے،تھوڑی دیر وہ لوگ اُس شخص کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ساتھ مل کر اُس کے پیسے تلاش کرتے رہے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد اُن میں سے ایک شخص نے اُس شخص سے پوچھا جس کے پیسے کھو گئے تھے۔جناب!آپ یہ تو بتائیے کہ آپ کے پیسے کہاں گرے ہیں؟
تو اُس شخص نے نہایت ہی معصومانہ انداز میں جواب دیا پیسے تو میرے گرے گھر کے اندر ہی تھے مگر گھر میں روشنی نہیں ہے،سڑک پر روشنی ہے،اس لیے میں یہاں تلاش کر رہا ہوں۔۔۔۔بظاہر تو آپ کو یہ بات افسانہ یا لطیفہ معلوم ہو رہی ہو گی اس بات پہ آپ غور کریں تو آج 22کروڑ عوام کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے جمہوریت کے نام پہ ہمارے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے عوام کو یوں ہی تلاش میں لگایا ہوا ہے مگر عوام کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ ڈھونڈ کیا رہے ہیں۔
اقتدار کی کرسی کی اتنی کشش ہوتی ہے جیسے ہی اُس کرسی پہ کوئی بیٹھتا ہے تو وہ تمام اپنی ہی کی ہوئی باتیں بھول چُکے ہوتے ہیں کہ ہم عوام کو کونسے حسین خواب دکھا کر اس کرسی تک پہنچے ہیں۔اور عوام اُنہی وعدوں کو پورا ہو جانے والے لمحوں کو 5سال تک ڈھونڈتی رہتی ہے اور سیاستدان اپنی من مانیاں اور اپنے اہداف کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ٹھیک اُسی طرح جس طرح وزیراعظم عمران خان نے وعدے وعید کیے اور وزیر اعظم کی کرسی پہ بیٹھتے ہی وہ بھول گئے اور عوام آج تک اُن وعدوں کو پورا ہونے کے وقت کو تلاش کر رہی ہے ۔
وعدہ تو وزیر اعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کا بھی کیا ۔عمران خان صاحب بات تو ریاست مدینہ کی کرتے ہیں مگر ریاست مدینہ کیسی ہوتی ہے یہ شاید اُن کو معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ میں تو کوئی شخص بھوکا نہیں سونا چاہیے مگر روز بہ روز اس ہو شوربا بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو عوام سے عزت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔میں ریاست مدینہ کی مزید بات کرنے سے پہلے اپنے قارئین کو تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہوں گی۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں نہ تو بنیاد پرست جماعتیں مقبول تھیں اور نہ ہی یہ موثر سیاسی طاقتیں تھیں۔مگر جیسے جیسے پاکستان میں جمہوری ادارے کمزور ہوئے جمہوریت کی بجائے آمرانہ شخصی نظام حکومت مستحکم ہوا ۔تو ویسے ویسے سیاست میں عوام کی شرکت ختم ہو گئی چند طبقے حکومت اور ریاست کے تمام ذرائع پر قا بض ہو کر ان سے فائدہ اُٹھانے لگے جبکہ عوام کے لیے جہالت،غربت،اور بیماریوں کے نہ حل ہونے والے مسائل چھوڑ دئیے۔
1971 کے انتخابات میں عوام نے ذالفقار علی بھٹو کو روٹی،کپڑا اور مکان ،کے نام پر ووٹ دیا مگر بھٹو کا سوشل ازم عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف رہے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بھٹو نے بنیاد پرستی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اس کی جڑوں کو مضبوط بھی کیا۔ایک کام کا کریڈٹ جو بھٹو کو ملتا ہے وہ1973 کے دستور میں اسلامی دفعات، قادیانیوں کو جمہوری طریقے سے غیر مسلم قرار دینے کا۔اور معاشرے کو اسلامی بنانے کے لیے جمعہ کی چھٹی،تعلیمی اداروں میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو لازمی قرار دینا،امام کعبہ کو بلوا کر اس کے پیچھے لوگوں کو نماز پڑھوانا۔اور قرآت کانفرنسوں کا انعقاد یہ سب اُس دور کی یادگاریں ہیں۔
اگر ہم اُس دور کو بنیاد پرستی سے جُدا کرکے دیکھیں تو ایک اسلامی معاشرے کی جھلک تو یقینا دکھائی دیتی ہے۔اور اگر ہم موجودہ دور کو دیکھیں تو ہر چیز اُلٹ دکھائی دے رہی ہے۔جس میں آج بچوں کے سلیبس میں نہ تو اسلامیات درست رہی اور نہ ہی مطالعہ پاکستان۔آج ہمارے بچے تاریخ سے بالکل کٹ چُکے ہیں۔کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو پہلے اُنہیں کھوکھلا کیا جاتا ہے حقائق سے دور رکھ کر اور وہ ہدف ملک دشمن عناصر نے پورا کر لیا ہے اور اُس کو پورا کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے کردار ادا کرکے آسان کر دیا۔
معاشرے کو اسلامی بنانے کا جو عمل بھٹو نے شروع کیا تھا اس کو ضیاء حکومت نے آگے بڑھایا۔حدود قصاص،دیت،زرعی اصلاحات اور شرعی عدالتوں کا قیام اس سلسے کی کڑیاں ہیں۔یہ تو میں بات کر رہی تھی ماضی کی۔اب آتے ہیں موجودہ دور میں ریاستی مسائل پہ بات کریں یاد رہے کہ ریاست اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔آج ہم کسی بھی ادارے کو کھول لیں تو کوئی بھی ادارہ آئینی یا قانونی لحاظ سے دیکھیں تو وہ اپنا کام صیح سے سر انجام نہیں دے پا رہا ۔ہر دور بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ سیاستدانوں کی من مانیوں اور اُن کے لالچ نے آج ریاست اور ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے جتنے بھی وعدے کیے اگر ہم اُن کا موازنہ کریں تو اُن میں سے 10%بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دئیے۔آپ نے سول نافرمانی کا کہا جب آپ کنٹینر پہ تھے ،بل جلائے اتنی بجلی مہنگی آپ نے اپنے دور میں کی اب عوام کو بھی اپنے مشورے سے نوازئیے کہ وہ کدھر جا کر بل جلائیں۔دو نہیں ایک پاکستان یکساں قانون کی بات کی وہ بھی سب گواہ ہیں کہ اس دور میں لاقانونیت نے اپنے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔
یکساں نصاب اور تعلیمی ریفارمز کی بات کرتے تھے نصاب کے ریفارمز تو ایک طرف پہلے سے بھی ذیادہ حشر نشر ہو چُکے ہیں۔قوم کو ہیلتھ کارڈ کا لالی پاپ اچھا دیا بجائے اس کے یہ ہیلتھ پہ اربوں خرچ کرتے قوم کو جو بار بار مہنگائی کا تحفہ دیتے ہیں بس اُسی کو کنٹرول کر لیتے۔وزیر اعظم کا کوئی بھی قوم کا خطاب کھول کر دیکھیں یا اُن کے ساتھ ملکی مسائل کی یا مہنگائی کی بات کر لیں تو بس ایک کی بات کرتے ہیں کہ نواز فیملی اور ن لیگ نے کرپشن کرکے ملک کا دیوالیہ کر دیا ،اُن کو ہی چور ،چور کے ابھی تک خطاب دے رہے ہیںاور کچھ نہیں تو پھر اپنی تقاریر میں بلاول کی نقلیں اُتار لیتے ہیں جو کہ شاید اُن کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے۔اُن کو فکر کرنی چاہیے عوام کے مسائل جو ان کے آنے سے بڑھے ہیں خصوصا جو مہنگائی ہے۔
یہ خود تو دوسروں کو چور کہہ رہے ہیں ان کے لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کی ناقابل یقین کرپشن سامنے آئے گی تب دیکھیں گے کہ یہ کتنا لوٹا مال واپس کریں گے۔عمران خان صاحب میں آپ کو مشورہ دینا چاہوں گی کہ اگر کوئی مشین یا گھڑی خراب ہو جائے تو اس کو گرانے یا پٹکنے سے وہ درست نہیں ہوتی، بلکہ اس کا فالٹ دیکھ کر اُس کو درست کیا جاتا ہے۔ لہٰذا عقلمندی کا ثبوت تو یہ ہو گا کہ آپ اپنی ٹیم کا بھی موازنہ کر لیں ۔کیونکہ پچھلے دنوں میرا گزر ایک پناہ گاہ کے سامنے سے ھوا جہاں بہت بڑا تالا منہ چڑا رہا تھا اب اُس پناہ گاہ کی مد میں کتنا فنڈ جاری ہوتا ہو گا وہ یا تو آپ جانتے ہیں یا آپ کی ناتجربہ کار ٹیم پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی جماعت کے پیچھے بھی یہی نعرے نہ لگنے شروع ہو جائیں اور ایسی جمہوریت میں میرا مشورہ ہے کہ دوبارہ آپ ریاست مدینہ کا لفظ بھی نہ کہیں کیونکہ ایسی جمہوریت میں تو خواب میں بھی ہم نہیں سوچ سکتے۔ نہ کب تک جمہوریت کے نام پہ یہ من مانیاں یوں ہی چلتی رہیں گی۔

مصنف کے بارے میں