لاکھوں کے جلسے نہیں! بس 172 اراکین

لاکھوں کے جلسے نہیں! بس 172 اراکین

ابھی کل کی بات ہے کہ ایک تانگے کی سواری پارٹی کے رہنما راتوں رات قومی رہنما بنا کر پیش کیے گئے۔ برائلر کی طرح 35 دن میں بڑی پارٹی جتنا وزن ہو گیا۔ جلسے جلوس بڑھنے لگے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی نہ وجود۔
جہاں چاہا دھرنا دیا، جلوس نکالا جو چاہا الزام لگا دیا، دشنام طرازی کی۔ پہلے سے تیار کی گئی جماعت کا بڑا حصہ شامل کرا دیا گیا۔ دھرنے کے درمیان جس سے شادی کی گئی، اس کو پہلے ’’مادر ملت‘‘ قرار دیا گیا اور طلاق کے بعد بازاری الفاظ سے نوازا گیا۔ عمران خان کے پاس جوق در جوق دوسری جماعتوں کے لوگ آنے لگے۔ گلے میں پٹکے ڈال دیئے جاتے اور وہ ڈرائی کلین ہو جاتے جو ماضی میں کیا، سب صاف ہوا۔ کرپشن کے خاتمے سے شروع ہونے والی تحریک انصاف سنگاپور، ترکی، چین، امریکہ، انگلینڈ، سعودی عرب اور ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نظام ہائے مملکت کی سیر کرانے لگی۔ 50 لاکھ نوکریاں، ایک کروڑ گھر، پانچ سال میں پاکستان یورپ سے خوبصورت، گورنر ہاؤس و ایوان صدر یونیورسٹیوں میں بدلیں گے۔ سادہ زندگی اپنانا ہو گی، بلا امتیاز احتساب ہو گا۔ پارلیمانی اور جمہوری نظام فروغ پائے گا نہ جانے کس دنیا کی باتیں اور دعوے کیے گئے۔ پارٹی میں شامل ہونے والوں کے لیے ہر شمولیت پر ایک ٹانگ پر لڈی ڈالی جاتی۔ سب کچھ کرنے کے باوجود الیکشن والے دن پھر خاک چھاننا پڑی تو قدرت نے مزید مدد کر کے تقریباً 155 سیٹ بنا دیں۔ اس پر مزید دھاندلی کا شور اٹھا۔ مگر شور کون سنے؟ میڈیا ہاؤسز کے مالکان تک کی زبان بندی کر دی گئی۔ ایوان صدر کا اجلاس ہوا، سب نے یقین دہانی کرائی کہ اگر آپ جمہوری روایات کے ساتھ ملک آگے لے کر چلیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ جب شہبازشریف کی تقریر نہ سننے دی تو پھر قائد ایوان کو بھی مشکل پیش آئی۔ اس روز بلاول بھٹو کی تقریر سب سے بہتر اور معیاری تھی۔ بلاول بھٹو نے سلیکٹڈ کہا تو وزیر اعظم نے بھی ڈیسک بجا دیئے۔ پھر میڈیا کو طاقتور حلقوں سے حکم ملا کہ خبردار سلیکٹڈ نہیں کہنا۔ پھر احتساب نہیں انتقام کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ایوب، ضیا، یحییٰ، مشرف اکٹھے لوٹ آئے، ’’فور اِن ون‘‘ ہو گئے۔ مشرف کی تو خیر پوری کی پوری کابینہ  اس حکومت کا حصہ رہی۔ سابقہ حکومتوں کے ناپسندیدہ لوگ موجودہ حکومت میں اکٹھے ہو گئے۔ 73 سال اور خصوصاً 45 برس میں جو کچھ حاصل کیا تھا، سب برباد کر دیا گیا۔ مہنگائی کا یہ عالم کہ بنیادی ضروریات زندگی حسرتوں میں شمار ہونے لگیں۔ وزیر اعظم امریکہ کا دورہ کر کے واپس آئے تو فرمایا، مجھے لگتا ہے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ مودی کے انتخاب سے پہلے مودی کے کامیاب ہونے پر معاملات درست ہونے کی نوید سنائی۔ امریکہ کے دورے اور مودی کھل نائیک کے کامیاب ہونے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت بدل دی گئی۔ ملک انتشار کا شکار اور وزیراعظم کبھی امریکہ چین، کبھی سعودیہ ایران کی مصالحتیں کرانے چلے۔
تمام کلیدی ادارے، سرخیل تجزیہ کار، بڑے میڈیا چینلز وزیر اعظم کی حمایت میں جُت گئے۔ حمایت والی بات کوئی نہیں تھی، بس حکم تھا۔ مگر لوگ جب بازار جاتے تو یوں لگتا کہ وہ کئی دہائیوں سوئے رہے، آج اُٹھے ہیں ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ تہذیب، تمدن، معاشرت بدل چکی ہے۔ انداز 
تکلم، انداز گفتگو بدل چکے ہیں، دوسروں کو دشنام طرازی، الزام تراشی، ڈھٹائی، خود نمائشی، خود پرستی، خود ستائشی، رشوت، بدعنوانی، وقت کی راگنی ہے۔ قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے اور آرڈیننس ارکان کی گنتی کیے بغیر ایک ایک دن میں تین درجن سے زائد بل کی صورت قانون کا درجہ حاصل کرتے رہے۔ جج کٹہروں میں اور جن کو کٹہروں میں ہونا چاہیے تھا وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک آئی ایم ایف کی آغوش میں چلا گیا۔ پرانے منصوبوں پر نئی تختیاں لگ گئیں، رنگ بازی، جھوٹ، مکاری، عیاری، بدزبانی کابینہ، مشیروں اور ترجمانوں کے لیے معیار بن گیا۔ سڑکیں نہیں قوم بنائیں گے، سڑکیں ٹوٹ گئیں، قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔
اس تاریک دور کی روداد کے لیے کتابیں درکار ہیں جب یہ منحرف اراکین 2018 میں اپنی اپنی پارٹی سے منحرف ہو کر نیازی صاحب کے پاس آتے اور آ کر گلے میں پٹکا ڈلواتے تو سب ٹھیک تھا؟ اس کے پیچھے فون ہوا کرتی تھی۔ فون کال کا اتنا دبدبہ ہوا کہ بینک اکاؤنٹ ہیکر بھی ایک طاقتور ادارے کا آدمی بن کر بات کر کے گوگل اور بینک اکاؤنٹ ہیک کرنے لگے۔ مجھے خود 0322-5089295 نمبر سے فون آیا۔ گوگل اکاؤنٹ اڑا لیا گیا اور بینک اکاؤنٹ پر حملہ ہوا مگر مجھے کچھ پروا نہیں تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فون کال اور ادارہ اس قدر استعمال کیا گیا کہ فراڈیئے بھی سہارا لینے لگے۔ یہ ایک رجحان چلتا ہے کبھی باہر بھجوانے کا جھانسہ دینے والے مارکیٹ میں ارزاں تھے، کبھی پاور لومز کام بہت تھا، کبھی مرغی خانہ ڈال رہے تھے۔ یہ ایک بھیڑ چال ہے جو کاروبار ہو فراڈیئے پھر اس کاروبار کے نام سے فراڈ شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہیکرز اور جرائم پیشہ نے بھی سوچا فون کال اور طاقتور ادارے کا نام بہت چلتا ہے لہٰذا ہم بھی فون کال پر کسی نہ کسی طاقتور ادارے کا نمائندہ بنتے ہیں۔
موضوع بکھر گیا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ یہی لوگ تھے جو خون کی صورت پی ٹی آئی کے وجود میں داخل ہوئے مگر توانائی پھر بھی نہ آئی، پھر بیساکھیاں دی گئیں، دوسروں سے ہاتھ پکڑنے اور سہارا دینے کا کہا گیا، سب کچھ ہوا۔ مگر جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی نیت ٹھیک ہے وہ غلطی پر ہیں، نیت ہی تو ٹھیک نہیں۔ جس نیت میں خرابی ہو دوسروں کی بربادی ہو۔ وہ معاشرت میں خوشحالی نہیں لا سکتی۔ آدمی کو اگر دوسرے لوگ یا سوسائٹی امیر سمجھنے لگے اگر وہ حقیقت میں نہ ہو، رستم سمجھ بیٹھے، بہادر، لائق، ذہین فطین، زاہد و عابد سمجھ بیٹھے، متقی سمجھ بیٹھے جو وہ حقیقت میں نہ ہو تو چند دن یا چند سال گزر جاتے ہیں مگر بربادی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ سمجھ بیٹھے جو لوگ سمجھنے میں غلطی کر رہے ہوں۔ یہی موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے مخالفین کو چور ڈاکو قرار دیا جو ساتھ لگے گئے وہ معتبر ٹھہرے، چپڑاسی قرار دیا مگر ساتھ لگنے پر قوت بن گیا۔
وزیر اعظم صاحب یہ وہی لوگ ہیں جو لائے گئے تھے، اب اپنی اپنی چھتریوں پر واپس جا رہے ہیں اپنی نئی منزل کی طرف اڑان بھریں گے، جوق در جوق آنے والے غول کے غول واپس جا رہے ہیں۔ آپ رہنما تھے، ہیں نہ ہوں گے اور خاص طور پر ان کے تو بالکل رہنما نہیں تھے جو آپ کو چھوڑ رہے ہیں جو آپ کو رہنما سمجھتے تھے اُن کو آپ چھوڑ چکے۔ اربوں روپے جناب علیم خان نے خرچے مگر آپ نے جیل دکھا دی۔ اربوں روپے خرچے ہوں گے ترین نے مگر آپ ان کے گھر تک پہنچ گئے۔ یہ وتیرہ ضیاالحق کا تھا۔ محسن کشی، کرپشن کو بطور پالیسی اپنانا، منافقت اور جھوٹ کو معیار گفتگو اور منصوبہ بندی کا حصہ بنانا، پھر کیا ہوا۔ ضیاالحق نے جناب بھٹو سے محسن کشی کی، گریٹ بھٹو مخالف عناصر ضیا کے ساتھی تھے۔ ضیا سیاسی طور پر برباد اس دن ہوا جب اپنے ساتھیوں کی حکومت توڑ دی۔ اس دن وی تنہا رہ گیا آپ نے جب اپنوں سے محسن کشی شروع کر دی تو آپ تنہا ہونے لگے۔ آصف علی زرداری نے چار سال پہلے کہا تھا کہ میں پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت ہی نہیں مانتا۔ آج مانگے تانگے کے لوگ اور اپنے جو ناراض واپس جا رہے ہیں تو زرداری صاحب کا کہا سچ ہے۔ حکومت کو لاکھوں کے جلسے نہیں بس 172 اراکین اسمبلی درکار ہیں۔ لوگ منحرف ہو کر سامنے آئے ہیں وزیراعظم اعتماد کھو چکے، اب عدم اعتماد کی ضرورت نہیں کوئی بھی غیر آئینی اقدام جمہوریت دشمنی نہیں ملک دشمنی ہو گا۔ مزید بوکھلاہٹ ملک کا نقصان کر دے گی، غصہ نہ کریں، اقتدار کے پنچھی اُڑ گئے مگر یاد رہے کہ دانہ دنکا کی وجہ سے نہیں نیازی صاحب کی زبان اور اپنی عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے، 22کروڑ عوام کی زندگی اجیرن ہونے سے نکلنے والی بد دعاؤں کی وجہ سے حکمرانوں کی بے حسی اور بد زبانی، ڈھٹائی اور بدعنوانی کی وجہ سے شبرات سے پہلے ہی پٹاخے چل گئے۔ زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی زبان کو کھینچ رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: خلیفہ رسول! یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ مجھے ہلاکت گاہوں کی طرف لے جاتی ہے۔ (مفہوم)۔ یہی شروعات تھی یہی انجام ہونا تھا۔ اس سارے قصے میں عمران خان کے دعووں، دوسروں پر الزامات، دشنام طرازی، اور اپنی حقیقی ذہنیت کا انکشاف ہونا تھا سو ہو گیا، لہٰذا موجودہ حکومت سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالتی رہی، اب سابقہ حکمرانوں نے حکومت کی کھٹیا کھڑی کر دی۔ جناب لاکھوں کے جلسے نہیں بس 172 اراکین۔

مصنف کے بارے میں