نگینے اور کمینے لوگ!

 نگینے اور کمینے لوگ!

کچھ سیاستدانوں خصوصاً کچھ حکمرانوں کے روزبروز بگڑتے ہوئے اخلاقیات کے حوالے سے اپنے گزشتہ کالم میں دوواقعات کا میں نے ذکر کیا تھا، ایک لکھ دیا تھا، دوسرا واقعہ یہ ہے ’’ہمارے ایک بہت ہی عظیم و نفیس سیاستدان ملک معراج خالد تھے، وہ اب اِس دنیا میں نہیں ہیں، ایک بار ہمارے ایک محترم قلم کار ڈاکٹر صفدر محمود (مرحوم) نے اُن کے بارے میں اپنے کالم میں کچھ انتہائی سخت الفاظ لکھ دیئے، میرا معراج خالد صاحب سے ذاتی تعلق تھا، اب اُن کی قبر سے ہے جہاں مہینے میں ایک بار حاضری میں ضرور دیتا ہوں، مجھے بہت غصہ آیا کہ ڈاکٹر صفدر محمود نے کیوں اُن کے بارے میں اتنے سخت الفاظ استعمال کیے؟ میں اِس کا پس منظر جانتا تھا، …پہلے میں نے سوچا معراج خالد صاحب کو اُن کے خلاف لکھے گئے اِس کالم بارے بتائوں میں نے ایسانہیں کیا، میری عادت ہے کسی کے بارے میں کوئی اچھی بات کہے میں ضرور اُس تک پہنچا دیتا ہوں، کوئی کسی کی غیبت کرے، یا کسی کے خلاف کوئی بات کرے، ایک تو میں اُسے روک دیتا ہوں، دوسرے جس کے خلاف وہ بات کرے میں اُسے بالکل نہیں بتاتا کہ کیوں ایسے ہی اُس بے چارے کا دل میں بُرا کروں، … اب مجھے اِس موقع پر ایک واقعہ یاد آرہا ہے، ایک بار صبح صبح ایک دوست نے مجھے فون کیا، کہنے لگا ’’اوئے بٹ تُوں عطا الحق قاسمی دا اج دا کالم پڑھیا اے ؟‘‘… میں نے کالم پڑھ لیا ہوا تھا، میں اپنا کالم نہیں پڑھتا کہ وہ پڑھنے والا ہوتا ہی نہیں، قاسمی صاحب کا کالم مگر آج بھی میں صبح سب سے پہلے پڑھتا ہوں، بہرحال اُس دوست سے ایسے ہی میں نے کہہ دیا ‘‘ نہیں، میں نے نہیں پڑھا قاسمی صاحب کا کالم، کیا لکھا ہے اُنہوں نے ؟،وہ بولا ’’اُنہوں نے تو تمہاری ماں بہن ایک کردی ہے، تمہیں ذلیل ورسوا کردیا ہے، تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، وغیرہ وغیرہ ‘‘… میں نے اُس دوست سے پوچھا ’’ یہ بتائو تم عطا الحق قاسمی کے کالم کب سے پڑھ رہے ہو؟‘‘۔وہ بولا کم ازکم بیس سال سے تو ضرور پڑھ رہا ہوں۔ … میں نے عرض کیا ’’ اے بندہ خبیث گزشتہ بیس برسوں میں قاسمی صاحب نے کوئی بیس بار تو ضرور میرے حق میں لکھا ہے، اُس پر تو کبھی تمہارا فون نہیں آیا، آج اُنہوں نے صرف ایک جملہ میرے خلاف لکھ دیا اور صبح صبح تمہارا فون آگیا،یہ کس قسم کی فطرت ہے؟…اصل میں یہ فطرت اب ایک شخص کی نہیں پورے معاشرے کی ہے، اگلے روز ایک دوست نے مجھ سے کہا ’’فلاں شخص تمہارے خلاف بڑی بدزبانی کررہا تھا‘‘… میں نے عرض کیا ’’تم جھوٹ بولتے ہو، وہ میرے خلاف بدزبانی کرہی نہیں سکتا، کیونکہ میں نے کبھی اُس پر کوئی احسان نہیں کیا، اور جب میں نے اُس پر کبھی کوئی احسان ہی نہیں کیا اُس کا کیا حق بنتا ہے میرے خلاف کوئی بات وہ کرے‘‘؟۔ہمارے ہاں لوگوں کی عمومی فطرت یا عادت اب یہ ہے کسی سے اپنا کوئی کام نکلواناہو، اُس کے پاس جاکر سب سے پہلے اُس کے مخالفین کی خامیوں پر بات کرتے ہیں، یہ اصل میں وہ اپنا جائز ناجائز کام نکلوانے کی راہ ہموار کررہے ہوتے ہیں، … یقین کریں مجھ سے کوئی ملنے آئے، اور میرے کسی مخالف کے خلاف کوئی بات شروع کر دے‘ میں فوراً اسے ٹوک دیتا ہوں‘ اور کہتا ہوں ’’یار مجھے سیدھا سیدھا بتائو میرے لئے کیا حکم ہے؟ بہرحال میں نے ملک معراج خالد کو نہیں بتایا ڈاکٹر صفدر محمود نے آپ کے خلاف کالم لکھا ہے ’’مجھے اس کالم کا رنج مگر بہت تھا میں ان دنوں روزنامہ جناح سے وابستہ تھا‘ میرا کالم روزنامہ جناح میں چھپتا تھا‘ یہ اخبار بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا تھا‘ ایک بہت ہی باصلاحیت صحافی اطہر مسعود اس کے ایڈیٹر تھے‘ وہ بڑے باکمال انسان ہیں‘ ان کا زیادہ عرصہ جنگ میں گزرا‘ ابھی بھی شاید وہ اسی ادارے سے وابستہ ہیں‘ میں نے ایک کالم لکھ دیا جس میں بتایا ڈاکٹر صفدر محمود نے ملک معراج خالد کے خلاف کالم کیوں لکھا تھا؟ اسی شام مجھے ملک معراج خالد صاحب کا اسلام آباد سے فون آ گیا تب وہ نگران وزیراعظم تھے وہ مجھ سے سخت ناراض ہوئے‘ فرمایا : ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں‘ وہ ایک نامور تاریخ دان‘ محقق‘ دانشور  اور کالم نگار ہیں‘ میں دل سے ان کی عزت کرتا ہوں میرے خلاف محض ایک کالم لکھنے سے میرے دل میں ان کی عزت میں رتی بھر فرق نہیں آیا‘ بلکہ میں نے انہیں فون کیا تھا جو انہوں نے اٹینڈ نہیں کیا‘ پھر میں نے ایک پیغام چھوڑ دیا تھا کہ آپ نے جو کچھ لکھا میں اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کی پوری کوششیں کروں گا‘ جب میں نے اپنے خلاف لکھے گئے کالم یا تحریر کا برا نہیں منایا آپ کو کیا ضرورت تھی آپ نے اپنے کالم میں اس کا جواب دیا؟ انہوں نے ٹھیک لکھا تھا آپ نے غلط لکھا اور آپ نے اس راز سے پردہ کیوں اٹھایا کہ وہ فلاں کام نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے ناراض تھے؟ ملک معراج خالد کی یہ ڈانٹ سن کر ایک لمحے کے لئے مجھے سخت غصہ آیا کہ میں نے ان کا ’’میراثی‘‘ بن کر ان کے خلاف لکھے گئے کالم کا جواب دیا‘ اور وہ بجائے اس کے میرا شکریہ ادا کریں الٹا مجھ پر چڑھائی کر دی ہے‘‘ میں نے فون بند کر دیا تھوڑی دیر بعد جب غصہ ٹھنڈا ہوا میں نے ان کے بارے میں سوچا کتنے عظیم اور اعلیٰ ظرف انسان ہیں وہ میں نے ان کی صحت سلامتی کے لئے دعا کی بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی چند روز بعد نگران وزیراعظم کے عہدے سے وہ جب الگ ہوئے انہیں کچھ فرصت ملی اک روز وہ میرے گھر تشریف لائے اور مجھے اس پر قائل کر لیا کہ میں ان کے ساتھ ڈاکٹر صفدر محمود کے پاس حاضر ہو کر  ان سے اپنے کالم کی معافی مانگوں‘ ہم ان کے پاس گئے ملک معراج خالد کی عظمت پر صفدر محمود کی آنکھیں بھیک گئیں  انہوں نے اپنے لکھے کی معذرت کر لی اور میں نے بھی اپنے لکھنے کی کر لی۔ یہ تھے ہمارے عظیم سیاستدان آج کے بے شمار سیاستدان ان کے پائوں کی دھول برابر بھی نہیں ہیں وہ اعلیٰ ظرفی کی انتہا پر تھے یہ کم ظرفی کی انتہا پر ہیں‘ یہ تو اپنے خلاف لکھا گیا ایک لفظ برداشت نہیں کرتے‘ سابقہ حکمرانوں نے اپنی کچھ پالیسیوں پر تنقید کے ’’جرم سنگین‘‘ میں جو کچھ میرے ساتھ کیا وہ تو تھے ہی کم ظرف‘ موجودہ حکمرانوں نے جوکچھ کیا یا کرنے کی کوششیں کی وہ میں بتا بھی نہیں سکتا کہ ان کم ظرف حکمرانوں کو اقتدار میں لانے کا کچھ ذمہ دار میں بھی ہوں‘ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو سچ بولنے کی ’’بیماری‘‘ ہے ہو سکتا ہے میرے یہ مہربان کسی روز یہ راز یا یہ سچ بھی کسی محفل میں خود ہی اگل دیں کہ میرے خلاف کیا گھٹیا سازش تیار ہوئی؟ جسے انہوں نے ناکام بنا دیا تھا۔

مصنف کے بارے میں