سینیٹ سے بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل اور نیب ترمیمی آرڈیننس منظور

سینیٹ سے بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل اور نیب ترمیمی آرڈیننس منظور
کیپشن: سینیٹ سے بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل اور نیب ترمیمی آرڈیننس منظور
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا (سینیٹ) نے بھی صحافیوں کے تحفظ اور قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس کی منظوری دے دی۔

سینیٹ اجلاس میں صحافیوں کے تحفظ کا بل وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری جبکہ نیب ترمیمی آرڈیننس وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے بطور ضمنی ایجنڈا پیش کیا۔ بل پیش کیے جانے کے ساتھ ہی حکومتی اراکین نے ان پر فوری ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب اپوزیشن نے بلز کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیے جانے پر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ بل کو بحث کے لیے قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔

اس ضمن میں شیریں مزاری نے کہا کہ بل کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگا ہے اس بل پر ابھی ووٹنگ کرائی جائے۔

دوسری جانب اپوزیشن اراکین احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے قریب پہنچے اور نعرے بازی کی۔ تاہم چیئرمین سینیٹ نے دونوں بلز پر ووٹنگ کرائی جس میں دلاور خان گروپ نے حکومت کو ووٹ دیا، جس کے نتیجے میں دونوں بلز ایوان سے منظور ہوگئے۔

بل کی منظوری پر ٹوئٹ کرتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ صحافیوں اور میڈیا اراکین کے تحفظ کا جامع قانون فراہم کرنے کے 2 سال کی جدو جہد کے بعد بالآخر یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہو گیا جس کا مسودہ صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل اکثریتی ووٹ کے ساتھ قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو گیا ہے اور اب صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا۔ساتھ ہی انہوں نے قابل قدر تجاویز اور حمایت پر صحافیوں اور میڈیا اراکین کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ بل کا مسودہ اتفاق رائے سے تیار کیا گیا تھا۔

بل کے آغاز میں کہا گیا کہ حکومت آئین کی دفعہ 9 کے مطابق ہر صحافی اور میڈیا پروفیشنل کے حقِ زندگی اور شخصی سلامتی کو یقینی بنائے گی اور یہ کہ ایسے کسی شخص کو ناروا سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔ 

یاد رہے کہ مذکورہ بالا دونوں بلز 8 نومبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئے تھے تاہم حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ان کی منظوری مؤخر کر دی تھی۔ 

دونوں بلز میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا کوئی ایسا شخص ہو گا جو قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے معاملات کی خاصی معلومات اور عملی تجربہ رکھتا ہو۔

مجوزہ قانون ’جبری یا رضاکارانہ گمشدگی، اغوا، قید یا دباؤ کے دیگر طریقوں‘ کے خلاف تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ملک میں تنازع کا شکار علاقوں میں کسی دھمکی، ہراسانی یا حملے کے خوف کے بغیر صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔