سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات
کیپشن: سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات
سورس: فائل فوٹو

لاہور: مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کے معاملے پر بھی اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اعظم تارڑ کے نام پر صاف انکار کر دیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کے معاملے پر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جماعتوں میں اختلافات برقرار ہیں اور زرائع کے مطابق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کے لئے اعظم تارڑ کا نام دیا گیا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعظم تارڑ بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کے وکیل رہے ہیں جنہیں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے اعظم تارڑ کے نام پر صاف انکار کر دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) ی قیادت کو دو ٹوک جواب دیا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کے سزا یافتہ مجرموں کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والے اعظم تارڑ ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہیں۔

خیال رہے 16 مارچ کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس کے دوران اسمبلیوں سے استعففے دینے کے معاملے پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا اور حکومت کے خلاف لانگ مارچ کو بھی ملتوی کر دیا تھا۔ 

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے 9 جماعتیں اس کے حق میں تھیں اور پیپلزپارٹی کو اس سوچ پر تحفظات تھے۔  پیپلز پارٹی نے وقت مانگا ہے کہ ہم پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف رجوع کریں گے اور پھر پی ڈیم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے پیپلزپارٹی کو موقع دیا ہے اور ہمیں ان کے فیصلے کا انتظار ہو گا لہٰذا 26 مارچ کا لانگ مارچ پیپلزپارٹی کے جواب تک ملتوی تصور کیا جائے۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت سے گزارش کی کہ ہمیں وقت دیں کیونکہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی )کا پہلا سیشن استعفوں کے حق میں نہیں تھا اور اس سلسلے میں ہم سی ای سی کی طرف جائیں گے۔