ہمیں اندازہ ہی نہیں!

ہمیں اندازہ ہی نہیں!

جیرڈ میسن ڈائمنڈ مشہور امریکی جغرافیہ دان ہیں، یہ 1937میں پیدا ہوئے اور آج کل یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں جغرافیہ کے پروفیسر ہیں۔یہ جغرافیہ کے علاوہ جن موضوعات پر دسترس رکھتے ہیں ان میں صحت، تاریخ اور ملکوں کے باہمی تعلقات شامل ہیں۔ یہ مختلف موضوعات پر درجن سے زائد کتب لکھ چکے ہیں اور امریکہ میں بیٹھ کر دنیا بھر کے میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہیں۔یہ تاریخ اور چیزوں کو معروف زاویوں سے ہٹ کر نئے انداز میں دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تاریخ صرف بادشاہوں، جرنیلوں اور حکمرانوں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ تاریخ میں عام انسان کا کردار بھی اہم ہوتا ہے اور ہمیں عام انسانوں کو بھی دنیا کے منظر نامے پر اہمیت دینی چاہئے۔یہ اپنی کتاب ”گنز جرمز اینڈ اسٹیل“میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں ایک بارافریقی ملک نیو گنی گیا، وہاں میری ملاقات ایک کالے سے ہو ئی،کالے نے سوال کیا ”تم سفید فام لوگ اتنے ذہین کیوں ہوتے ہو، تم نے دنیا میں اتنی چیزیں کیسے ایجاد کی ہیں اور تم ٹیکنالوجی کی معراج کو کیسے پہنچے ہو۔تم لوگ جب بھی یہاں آتے ہو اپنے ساتھ نئی نئی چیزیں لے کر آتے ہو، ہم کالے لوگ بہت کم چیزیں بناتے ہیں اور نہ ہمیں بنانی آتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟“جیرڈ ڈائمنڈ کے پاس اس سادہ سے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے کالے سے معذرت کی اور وہاں سے چل پڑے۔ وہ ساری زندگی اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے،وہ یہ کھوج لگاتے رہے کہ قوموں اور ملکوں کے حالات میں اتنا تفاوت کیوں ہوتاہے کہ ایک قوم انتہائی ترقی یافتہ تو دوسری قوم زوال پذیر کیوں ہوتی ہے۔ پچیس سال بعد جیرڈ ڈائمنڈ نے اس سوال کے جواب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ”گنز جرمز اینڈ اسٹیل“رکھا۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا کہ دنیا کے ہر خطے اور ہر علاقے میں ماحول مختلف ہوتا ہے، جن قوموں کا ماحول اچھا، تخلیقی، پر امن اور مستحکم ہوتا ہے وہ قومیں آگے نکل جاتی ہیں اور جن قوموں نے ماحول کی پرواہ نہیں کی اور ماحول کو پر امن، تخلیقی اور علم دوست نہیں بنایا وہ قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئیں۔
بظاہر یہ ایک عام سا تجزیہ ہے لیکن یہ حقیقت سے قریب تر ہے اورتاریخ اور فلسفہ تاریخ کے امام ابن خلدونؒ نے بھی ماحول کو عروج وزوال کے حوالے سے ایک اہم عنصر کے طور پر شامل کیا ہے۔ درا صل کسی قوم کی ترقی اور تنزلی کا معیار اس کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے اور تخلیق کا ری کے لیئے ماحول کا سازگار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ساز گار ماحول، معاشرتی استحکام، باہمی تعاون، خوش اخلاقی، قانون کی پابندی، ادب و احترام، امن و امان، عدل وانصاف، میرٹ، منصوبہ بندی، خوشگوار فضا، اظہار رائے، تحمل و برداشت،وسعت ظرفی اور بلند حوصلگی یہ وہ ماحول ہے جس میں کو ئی تخلیق کا ر جنم لیتا ہے۔ 
پندرویں صدی تک یورپ ہم سے آگے نہیں تھا لیکن پھرپندرویں صدی کے آخر میں یورپ کا ماحول تبدیل ہونا شروع ہو ا،یورپی باشندوں نے مذہبی و سیاسی جبر کے خلاف آواز اٹھائی، اپنے ماحول کو تبدیل کرنا شروع کیا اورامن و امان،آزادی رائے،تحمل و برداشت اور باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے نئے راستے تلاش کرنے شروع کیئے۔اسی ماحول کا نتیجہ تھا کہ یورپ میں کولمبس جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے امریکہ دریافت کر کے یورپ اور اہل یورپ کے لیئے دولت کے دروازے کھول دیئے۔امریکہ سے حاصل ہونے والی دولت نے اہل یورپ کو امن پسند بنا دیا تھا اور ان کی یہی امن پسندی ان کی تخلیق کا ری کا سبب بن گئی۔ ایشیا کے بحری راستوں پر مسلمانوں کے قبضے کی وجہ سے یورپ کی ساری تجارت رکی ہوئی تھی لیکن اہل یورپ کا جیسے ہی ما حول بدلا انہوں نے سب سے پہلے اس مسئلے کا حل نکالا۔ انہوں نے ہندوستا ن اورجنوبی ایشیاء سے رابطے کے لیئے نئے سمندری راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے، واسگو ڈے گاما نے یورپ کا یہ مسئلہ بھی حل کر دیا اور بحیرہ روم میں عثمانی ترکوں کی مڈل مین کی حیثیت ختم ہو گئی۔ماحول ساز گار ہونے کی وجہ سے اہل یورپ کا رجحان سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف بھی ہو گیا تھا۔اب مذہبی و سیاسی جبر ختم ہو گیا تھا اور نئے نظریات کی قدر کی جانے لگی تھی۔ اس خوشگور ماحول اور نظریات کی آزادی نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کا ایک نیا ذوق پیدا کیا۔ یورپ کے دانشور طبقے کو ایک نئی مصروفیت مل گئی، اب ان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق اور ریسرچ کے مقابلے ہونے لگے، نئے مقالے اور نئی کتابیں شائع ہو نا شروع ہوئیں، نئی تحقیقات اور ایجادات سامنے آنے لگیں۔ دانشوروں اور اسکالروں کی انجمنیں وجود میں آ گئیں، ان کے تحقیقی مقالے چھپتے اور ان پر بحث ہوتی۔ اس طرح کی سب سے پہلی انجمن روم میں 1603میں وجود میں آئی۔ اس کے بعد 1633میں فلورنس، 1660میں رائل اکادمی لندن اور 1666میں پیرس میں اکادمیاں اور انجمنیں وجود میں آئیں۔ ان اسکالرز نے قدیم یونانی فلسفے سے بھی اختلاف شروع کر دیا جسے عیسائیت نے اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا تھا اور اس سے اختلاف عیسائیت میں بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا۔
 یورپ چار پانچ صدیاں قبل اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ من حیث القوم زندہ رہنے، تخلیق کاری اور اپنی تہذیب کو باقی رکھنے کے لیئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ے۔ انہوں نے چار پانچ صدیاں قبل ہی مکالمے کی فضا، وسعت نظری،تحمل، برداشت، اعلیٰ ظرفی اور اظہار رائے کی آزادی جیسی ا قدار کو اپنے ماحول کا حصہ بنا لیا تھا۔انہی اقدار کو اپنانے کی وجہ سے وہاں تخلیق کاری نے جنم لیا اور وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ آج ہمارے ہاں نا وہ ماحول ہے اور نا ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ہمارے ہاں جو ماحول ہے اس میں عدم برداشت، قتل و قتال، فساد، لڑائی جھگڑا، تنقید اور نظریات کے اختلاف کو مرنے مارنے کا سبب بنا لینا جیسے رویے ہی جنم لیتے ہیں اورہم اس جہالت میں خود کفیل ہیں۔نئے نظریات اور تصورات ہی تخلیق کاری کا آکسیجن ہوتے ہیں، دلیل سے دلیل ٹکراتی ہے تو سچ جنم لیتا ہے۔کہتے ہیں گلیلیو کو جب اس کے نظریئے کی وجہ سے کہ ”زمین سورج کے گرد گھومتی ہے“عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے اپنا یہ نظریہ واپس لینے پر مجبور کیا گیاتو اس نے بظاہرجج کے سامنے اپنے نظریئے سے رجوع کیامگر ساتھ ہی زمین کی طرف سر جھکا کے کہا ”یہ تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔نئی سوچ، نئی فکر، نئے نظریات اور نئے افکار ہی کسی قوم کی بقاء اور ترقی کے ضامن ہوتے ہیں، انہی کے دم سے تخلیق کاری جنم لیتی ہے اور اس کے لیے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے۔کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں پڑھنے والے یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا پاتے مگر یہی اسٹوڈنٹس جب امریکہ و یورپ کی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو موجد اور سائنسدان بن کر نکلتے ہیں۔ پاکستان میں بیس پچیس سالہ طالب علم اپنی ذات میں مگن ہوتا ہے مگر مغربی یونیورسٹیوں میں اسی عمر کے اسٹوڈنٹس نئی دریافتیں کرتے ہیں اور تخلیقی کارنامے سر انجام دیتے ہیں۔یہ سراسر ماحول کا فرق ہے اورہم بد قسمتی سے ابھی تک یہ ماحول پیدا نہیں کر پائے، پیدا کرنا تو دور کی بات ہمیں اس ماحول کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔

مصنف کے بارے میں