دیکھو اور انتظار کرو

دیکھو اور انتظار کرو

ملک میں جاری کشیدگی ،موسم کی گرمی کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے ، سیاسی اختلافات میں درآنے والی تلخی، نفرت و عصبیت کی حدود کو پھلانگ کردشمنی کے رنگ میں رنگتی جا رہی ہے،اگر اس کو روکا نہ گیا تو اسرار بتا رہے ہیں کہ یہ تصادم خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے،جس کا نقصان سیاستدانوں کو کم اور ملک وقو م کو زیادہ بھگتنا ہو گا،جمہوریت کے علمبرداروں کی غیر جمہوری غیر سیاسی اور غیر اخلاقی حرکات کے نتیجے میں کوئی غیر جمہوری قوت متحرک اور فعال ہو سکتی ہے اگر چہ اس کا کوئی امکان نہیں مگر جب ملکی سلامتی دائو پر لگا دی گئی تو کسی کو تو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ، عمران خان حکومت کو مزید ایک سال برداشت نہ کرنے والے پھر دس سال سے زائد عرصہ تک جمہوریت کا راگ الاپیں گے مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا،یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے ،عمران خان کے احتساب کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل کی ٹھان لیں تو یہ احتساب بہت کڑا ہو گا ،لطف کی بات یہ کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والوں کو خود ایک دوسرے پر اعتماد نہیں،عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کے بعد جوتیوں میں دال بٹے گی،سر پھٹول ہو گی،اور عدم اعتماد کی یہ طلسم ہوش رباایک نئے بحران کو جنم دے گی،ابھی عمران خان کے مخالفین صرف عمران دشمنی میں برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔
 شہباز شریف اور آصف زرداری میں ابھی سے اختلافات کوئی خفیہ راز نہیں،شہباز شریف فوری عام الیکشن اور زرداری اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے پر مصر ہیں،شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر رکھنا ہے ، اس لئے سب قبول کیا کہ ایک تو شریف خاندان اپنے سوا کسی کے سر پگ رکھنے کا عادی نہیں دوسرے پیپلز پارٹی کی ضد تھی اور پیپلز پارٹی کے بغیر کیا اپوزیشن اور کیسی عدم اعتماد تحریک،لانگ مارچ اور دھرنے پر بھی دونوں میں اختلافات ہیں،لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جو گنجلک اور پیچیدہ مسائل سر اٹھائیں گے اس کے حوالے سے کوئی پیش بندی نہیں کی گئی،میثاق جمہوریت کے بعد بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مخلوط حکومت بنائی تھی جس کا انجام ابھی سیاسی کارکنوں کے ذہن میں تازہ ہے۔
 تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے ہر قسم کا غیرآئینی،غیر جمہوری،غیر سیاسی اور غیر اخلاقی حربہ آزمایا جا رہا ہے ،ماضی میں ن لیگ نے چھانگا مانگا اور مری میں ارکان اسمبلی کو محصور رکھنے کی روایت ڈالی اب اس روایت کو پیپلز پارٹی سندھ ہائوس میں ارکان کو قید کر کے زندہ کر رہی ہے،حکومت بے بسی کے عالم میں باغی ارکان کے ہاتھ پائوں باندھنے کے آئینی راستے اختیار کررہی ہے اور اس سلسلے میں باغی ارکان کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا رہا ہے، سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی بھی تجویز ہے، جسے وزیر اعظم نے نہیں مانا،اگر یہ انتہائی اقدام کیا گیا تو سیاسی کشیدگی تصادم کے بعد خانہ جنگی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے، ن لیگ کی بقا اقتدار حاصل کرنے سے مشروط ہے،اگر تحریک انصاف کی باقی ماندہ مدت کا اقتدار ان کے ہاتھ نہ آیا تو ان کی منڈھیر سے بھی پرندے اڈاری بھرنا شروع کر دیں گے،تحریک عدم اعتماد صرف حکومت اور اس کے اتحادیوں کیلئے امتحان وآزمائش نہیں بلکہ اپوزیشن کیلئے بھی آگ کا دریا ہے اور اسے تیر کے جانا ہے۔
 تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی بارے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں،لیکن یہ کہنا مشکل نہیں کہ کامیابی کے بعد بھی سیاسی بحران کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا بلکہ بحران در بحران جنم لیں گے،عمران حکومت نے ملک کی معاشی سمت کو درست کرنے کیلئے دن رات محنت کی اور حکمت عملی سے معیشت کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا،درآمدات اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کیا برآمدات کو بڑھایا سمگلنگ کی روک تھام اور ٹیکس نظام کو درست کر کے قومی آمدن میں بھی اضافہ کیا،ملک کی خارجہ پالیسی جو ایک مدت سے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی کو ملکی مفاد میں کیا،ماضی کے حکمران امریکہ سے نقد رشوت اور اقتدار کی ضمانت لیکر آنکھیں بند کر کے انکل سام کی جی حضوری کرتے رہے،مگر عمران حکومت نے امریکہ کی ہر بات تسلیم کرنے اور ملکی مفاد کا سودا کرنے سے گریز کیا ،اب جبکہ اقتصادی راہداری مکمل طور پر فعال ہونے کو ہے اور وسط ایشیائی ریاستوں کو سستی اور آسان تجارتی گزر گاہ ملنے والی ہے پاکستان نے چین کے بعد خطے میں روس سے بھی تعلقات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ہے اس سلسلہ میں وزیر اعظم عمران خان نے روس کا کامیاب دورہ بھی کیا،مگر اپوزیشن نے امریکی ایما پر عدم اعتماد کی تحریک لا کر ملک کی خارجہ پالیسی کو منجمد کرنے کی کوشش کی ،اگر اسے عالمی سازش کہا جاتا ہے تو غلط کیا ہے؟اور یہ جو خدشہ ہے کہ کوئی غیر جمہوری قوت فعال ہو سکتی ہے اسی بنا پر ہے کہ ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کو اپوزیشن نے دائو پر لگا دیا ہے صرف اقتدار کیلئے مگر کیا ان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا یا اب بھی یہ لوگ ریلوے سٹیشن کی انتظار گاہ کے مکین رہیں گے یہ وقت بتائے گا اور بہت جلد بتائے گا۔
 اس صورتحال میں اگر چہ ہر محب وطن شہری پریشان ہے مگر بیوروکریسی جو ایسی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سب سے زیادہ پستی ہے وہ اپنے مستقبل اور ملک کی خیر خواہی میں زیادہ پریشانی سے دوچار ہے،تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی حکومت نے بیوروکریسی پر اعتماد کر کے اس کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا بیوروکریسی نے مایوس نہ کیا،فوجی حکمران جو خود بھی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی منظم اور منضبط دیکھنا چاہتے ہیں بیوروکریسی کوخاص اہمیت دیتے ہیں کیونکہ وہ آئین اور قواعد سے بے خبر ہوتے ہیں اس لئے بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور کبھی کوئی کام قواعد کے خلاف کرنے کا حکم نہیں دیتے جبکہ سول حکمران نہ تو کسی نظم کے پابند ہوتے ہیں نہ کسی قاعدے ضابطے کو تسلیم کرتے ہیں اس لئے قواعد کے منافی احکامات صادر کرنے سے گریز نہیں کرتے،بیوروکریسی بنیادی طور پر ریاست کی ملازم ہوتی ہے ،اس کیلئے اہم ترین ریاست اورآئین و قانون ہوتے ہیں،سرکاری افسر کسی سیاسی جماعت کے کار خاص نہیں بننا چاہتے بلکہ قواعد اور ضوابط کے مطابق خدمات انجام دینے کی خواہش رکھتے ہیں،انہیں انعام سے بھی غرض نہیں ہوتی مگر اکرام ہر انسان کی طرح فطری تقاضا ہے،ماضی میں یہی بیوروکریسی ملکی ترقی و خوشحالی کی ضمانت تھی مگر آج راندہ درگاہ ہے اسی وجہ سے کار حکومت بجا طور انجام نہیں پا رہے،عزت و وقار ان کے عہدے کا تقاضا ہے مگر اس سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں ،بیوروکریسی ایسے ماحول میں کام کرنا چاہتی ہے جہاں ڈسپلن کی پابندی ،آئین قانون قواعد ضوابط کا احترام ہو،وہ ان دنوں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

مصنف کے بارے میں