تو خاک میں مل اور آگ میں جل ……

تو خاک میں مل اور آگ میں جل ……

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے! ایک تقابل ہمسایہ افغانستان مسلسل پیش کر رہا ہے۔ 14 نومبر کی رائٹر کی رپورٹ میں قطار اندر قطار امریکی آرمرڈ سیکورٹی گاڑیوں پر سوار 250 فوجی تربیت پاکر نکلنے والے طالبان ہیں۔ گوریلا جنگ سے نکل کر باضابطہ فوج میں ڈھلتے یہ فوجی، درجنوں امریکی گاڑیاں لیے (جن پر اب کلمہ طیبہ لکھا ہے)، امریکی ساختہ ایم۔ 4 رائفلز سے مسلح کابل کی شاہراہوں پر پریڈ کر رہے ہیں۔ اوپر روسی M-17 ہیلی کاپٹرز اڑ رہے ہیں۔ یہ عسکری ساز وسامان پچھلی افغان حکومت کو طالبان سے لڑنے کے لیے فراہم کیے گئے 28 ارب ڈالر کے دفاعی ہمہ نوع اسباب کا حصہ ہے۔ اشرف غنی کے لوٹ بھاگنے اور افغان فوج کے فرار کے بعد یہ طالبان کے قبضے میں ہے۔ ہم نے 20 سال پہلے جو امریکا سے سودا چکایا، اس نے ہمارے ہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صنعت میں سرمایہ کاری کی۔ ہماری سڑکیں ہمہ نوع لینڈ کروزر سے بھر گئیں۔ نوجوان دمکتی گاڑیوں کے اسیر ہوئے۔ مقابلہ اسی کا رہا۔ افغانوں نے جو سودا ملاعمرؒ کے ساتھ چکایا، وہ گاڑیوں سے اتر کر موٹرسائیکلوں اور پیدل راستے ناپنے پر آ گئے۔ ایک طویل کٹھن راستہ جس پر بے پناہ مشقت، فاقہ کشی، جان ومال کی قربانیوں کی ایک خونچکاں داستان رقم ہوئی۔ اس پر خار راہ کے آخر میں بے مثل فتح کا دروازہ کھلا، بڑے بڑے محلات میں قیصر وکسریٰ کے قالین روندتے مجاہدین کی کہانیاں 1 2ویں صدی میں تازہ ہوگئیں! پاکستان نے برادر ملک کی مدد سے ہاتھ اٹھاکر امریکا کا ساتھ دیا یہ کہہ کر کہ: یہ ہماری مجبوری ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو امریکا ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔ پتھر کا دور……؟ آج قرضوں میں ڈوبے، بجلی، گیس، پٹرول، حتیٰ کہ آٹا، سبزی، دال پہنچ سے باہر جا رہی ہے۔ صنعتیں ٹھپ ہوچکیں۔ دریا خشک لبی کے مارے صرف بچوں کے کرکٹ کھیلنے کے میدان بن کر رہ گئے۔ ملک میں مذکورہ بالا صنعت کے علاوہ شوبز، ماڈلنگ، حیا سوزیوں کے بعد وڈیوز اپ لوڈ کرنے کی صنعتیں رہ گئیں۔ کورونا نے رہی سہی کسر نکال کر نمبر امتحانوں میں مفت بانٹنے کی فیکٹریاں لگاکر تعلیم ڈبو دی۔ آج نوجوان یا کرکٹ جیتنے/ ہارنے پر پٹاخے بجاتے، فائرنگ کرتے ہیں۔ یا شادی بیاہوں پر دل کی حسرتیں نکالتے ہیں۔ افغانوں نے ہمویز کمائیں، دفاعی ساز وسامان سمیٹا۔ دنیا کی بڑی عفریتی قوتوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔ اس حد تک کہ امریکا میں اب لڑکر یہاں سے جانے والے فوجیوں کی روتی دھوتی تصاویر، غم وغصہ بھرے انٹرویو، خودکشی کی خبریں، نفسیاتی امراض کی ابتری کی سرخیاں امریکی شکست کا المیہ بیان کر رہی ہیں۔ سات لاکھ 75 ہزار یہ فوجی، جن میں سے کئی بار بار افغانستان گئے شاک کے عالم میں ہیں۔ سروے میں 73 فیصد کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا۔ 67 فیصد ذلت کے احساس تلے دبے پسے جا رہے ہیں۔ دو تہائی کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان سے شکست خوردہ نکلے ہیں۔ اس کی تلخی شدید ہے۔
دنیا جابجا اجلاس کرکرکے اعلامیے جاری کرنے کی خدمت بجا لا رہی ہے زمینی حقائق دیکھے بغیر۔ افغانوں کو ان کا جائز حق (اثاثوں کی بحالی) دیے بغیر۔ 43 سال میں (وزیرِخارجہ ملامتقی کے خطاب کے مطابق) پہلی مرتبہ ملک کے چپے چپے پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔ اس کے باوجود ٹرائیکا نے کہا: ’طالبان جامع نمایندہ حکومت کے لیے اقدامات کرے، غیرملکی شہریوں اور اداروں کے  تحفظ اور جائز حقوق کا احترام کیا جائے۔ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دے۔‘ جامع حکومت کیا ہر ملک میں قائم ہے؟ جس میں عمران خان کے شانہ بشانہ نوازشریف اور بائیڈن کے ہمراہ منہ پھولا ٹرمپ خوشی خوشی شریک حکومت ہو۔ پوتن گزیدہ روسی اپوزیشن سیاست دان، ناولنی (ہسپتال میں داخل زہر دیے جانے بعد) جیلوں میں دھکے کھاتا جامع روسی حکومت بنا کر دکھائے! خواتین، صحت کے اداروں میں 100 فیصد آچکی ہیں۔ تعلیم میں 75 فیصد۔ مگر چونکہ وہ سڑکوں پر بے پردہ نمائش کے مناظر پیش نہیں کر رہیں اس لیے مغرب کی بھوکی نگاہیں گریہ کناں ہیں۔ ان کے ہاں ترقی کے یہ مناظر بہ اہتمام دکھائے جا رہے تھے کہ یہ خواتین ہر جگہ مردوں کو ویکسین لگانے کے لیے تصاویر میں موجود تھیں۔ مہذب باپردہ محترم شائستہ خواتین اپنے دائرہ کار میں تمام خدمات انجام دیتی مغرب کو گوارا نہیں۔ یہ وہ ترقی تھی جو 20 سال میں لاکھوں جانوں کا نذرانہ وصول کرکے، افغانستان کے طول وعرض پر بارود برساکر انہوں نے اس ملک کو دی! ملا متقی نے اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک اسٹڈیز میں افغانستان میں حالات پر عمدہ سفارتی لب ولہجے میں روشنی ڈالی۔ جس کا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال ایک زمینی حقیقت ہے اس اجماع کے ساتھ کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں۔ اگر وہاں افراتفری ہوگی تو نتیجہ دہشت گردی کی صورت نکلے گا۔ پراعتماد ملامتقی نے وضاحت کی کہ افغانستان میں 5 لاکھ سول سرونٹس کو تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ کسی ایک کو بھی سیاسی اختلاف کی بنا پر ملازمت سے نکالا نہیں گیا۔ نہ ہی کسی عورت کو ملازمت سے نکالا یا اس کی تنخواہ کاٹی۔ افغانستان میں 3 ہزار کلینک اور ہسپتال تھے جو بدستور چل رہے ہیں۔ عالمی حقوق انسانی کے چیمپئنز کے پاس ہمارے اثاثے منجمد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ عبوری حکومت سے اصلاحات چاہتے ہیں تو وہ پرامن طریقے سے ممکن ہے دباؤ کے حربوں سے نہیں۔ ہمیں مستقبل کے موہوم اندیشوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ باوجودیکہ انہوں نے بلاخوں ریزی کابل پر امن سے حکومت حاصل اور قائم کی ہے۔
خود مغرب سے گواہیاں اٹھ رہی ہیں، تحسین پر مجبور ہوکر طالبان کے نظام اور تحریک سے متاثر ہوکر۔ فرانس کا ’لی مونڈ‘، ستمبر 2021ء کی ایک خصوصی رپورٹ میں اس پر روشنی ڈالتا ہے کہ طالبان نے کس طرح مغرب کو شکست دی۔ جس دوران مغرب افغانستان میں ازکار رفتہ علوم ِبشریات آزماتا معاشرے کی تعمیر میں کوشاں رہا، طالبان اپنے ادارے بناتے، دیہی آبادی کا اعتماد جیتنے میں لگے رہے۔ امریکی شکست تھنک ٹینکوں، حکومت، یونیورسٹیوں اور این جی اوز کی ناقص بصیرت کے ہاتھوں ہوئی۔ طالبان ایک قومی مرکزیت پر مبنی، واضح نظریاتی بنیادوں پر استوار تحریک ہے۔ مکمل فکری ہم آہنگی، باہمی رفاقت پر مبنی۔ ضروری مہارت سے لیس علماء ان کے مدارس سے تیار کیے جاتے ہیں جو مطلوبہ بیورو کریسی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مؤثر، منضبط تنظیم جس میں حکم عدولی پر برطرف کیا جاتا ہے۔ عوام کے ساتھ تشدد، چوری، جاسوسوں کے بلامقدمہ قتل کی مکمل ممانعت رہی۔ دیہی علاقوں میں متوازی حکومت (طالبان کے گورنر، جج اور تعلیم میں) کام کرتی رہی۔ مناصب کی کھینچاتانی کا کوئی تصور ان کے ہاں نہیں۔ ملا عمرؒ کے انتقال (اور اسے چھپائے رکھنے) پر کوئی اختلاف سامنے نہ آیا۔ ان کے بعد ملا اختر منصور اور ان کی شہادت پر آرام سے ہیبت اللہ اخوند زادہ نے جگہ لے لی، کابل حکومت کی آپادھاپی کے برعکس۔ دوسری قومیتوں کو 12 رکنی سپریم باڈی میں جگہ دے کر وہ جامعیت کے ساتھ افغان قوم کے چیمپئن بن کر ابھرے۔ عدالتی نظام 2005ء سے ان کے ہاں اہم ترین رہا۔ جج شان وشوکت سے بے نیاز گاؤں کی مسجد، نجی گھر یا باہر درخت کی چھاؤں میں بیٹھتے۔ سہل، سستے ترین، شفاف انصاف کی فراہمی سے افغانستان کے طول وعرض میں عوام کے دل جیتے۔ سبز چائے کی پیالی کے ساتھ سادہ عدالتی نظام میں جج خود درخواست وصول کرتے، گواہوں سے سوالات، کاغذات ملاحظہ کرتے بالعموم چند دنوں میں فریقین کے لیے اطمینان بخش طریقے سے فیصلہ سنا دیتے۔ مشکل ترین کیس بھی چند ماہ سے زیادہ وقت نہ لیتا۔ اپنے آبائی علاقے سے دور (غیرجانبدار رہنے کے لیے) متعین کیے جاتے، شرعی قانون کا امتحان پاس کرلینے پر،تادیر ایک جگہ نہ رکھے جاتے بدعنوانی سے بچانے کے لیے۔ تحائف قبول کرنے پر سزا دی جاتی۔ عوام کا اعتماد شفافیت سے جیتا۔ طالبان نے یوں قومی تعمیر پر محنت کی بہ نسبت 20 سالہ امریکا اور اتحادیوں کی زور آزمائی کے! حتیٰ کہ کنٹر کے گورنر نے بھی سستے اور یقینی انصاف کی بنا پر اپنے مخالف طالبان کی عدالت سے رجوع کیا اپنی بدعنوان، راشی حکومت کو چھوڑکر! جریدے ’لی مانڈ‘ کی بے لاگ رپورٹ سبھی کو آئینہ دکھاتی ہے!
تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر