غلطی کی گنجائش نہیں

غلطی کی گنجائش نہیں

جس بے دردی کے ساتھ تمام قاعدے قانون روند کر اور ریاستی اداروں کا بے رحمانہ استعمال کرکے 2018 ء میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلط کی گئی تھی۔ اتنی ہی بڑی غلطی اس سال اپریل میں اس وقت کی گئی جب آئینی طریق کار کے مطابق عمران خان کو فارغ کیا گیا تو ادارے اپنا پیدا گند خود سمیٹنے کے بجائے نیوٹرل ہوگئے ۔ ماضی کے برعکس حکومت سے فراغت کے بعد پی ٹی آئی کو سپیشل سٹیٹس دیا گیا ۔عام پاکستانیوں کو یہ تاثر ملا کہ جنرلوں اور ججوں کی طرح عمران خان بھی ہر طرح کے احتساب سے بالا تر ہیں۔ اسی ماحول میں عمران خان کو جھوٹے بیانیے پھیلانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ میڈیا کے ایک حصے کو اس مقصد کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ۔ سوشل میڈیا پر بھی موثر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ آج بھی اداروں اور سیاستدانوں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والے پی ٹی آئی کے ارکان کو پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کی جانب سے تمام تر سرکاری وسائل اور مراعات فراہم کی جارہی ہے ۔ عدلیہ کی پی ٹی آئی دوستی تو ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پی ٹی آئی کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو ماضی میںفارغ ہونے والی تمام حکومتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ پاکستان میں جاری موجودہ افراتفری کی یہی واحد اور بنیادی وجہ ہے ۔ عمران خان کی موجودہ مقبولیت کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ بائیس کروڑ عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہونے والا سابق وزیراعظم مقدمات اور جیل بھگتنے کے بجائے جلسوں میں کھڑا ہوکر سب کو للکار رہا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ بظاہر خاموش اور عدلیہ بڑی حد تک اسکا ساتھ دے رہی ہے۔ ایسے میں کون نہیں چاہے گا کہ وہ ایسے لیڈر کے ساتھ کھڑا ہو جس سے سب ڈرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے باوجود عمران خان جن کو دھمکا رہے ہیں ان کے خلاف کھل کر میدان میں آنے سے گریزاں ہیں ۔ عوام کی بڑی تعداد کو بھی یقین تھا کہ عمران خان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے کے فوری بعد لانگ مارچ اور اسلام آباد کے محاصرے کی کال دیں گے مگر ایسا نہیں سابق وزیر اعظم نے ایک بار پھر’’نیو ٹرلز ‘‘ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے نئے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا تاہم انہوں نے وارننگ دی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے اکتوبر میں ہی کریں گے ۔ حکومتی اتحاد نے اس مطالبے کو فوری طور پر مسترد کر کے انتباہ کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وفاقی حکومت پہلے ہی سے اسلام آباد میں کنٹینرز لگا کر دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنا موقف مزید سخت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پر حملہ آور ہونے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اب تک کی سرگرمیوں سے واضح ہوچکا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مقتدر حلقوں کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو رہیں ۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پی ٹی آئی کے پاس لانگ مارچ کرنے اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس اسے روکنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہ جائے گا۔ایسے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا تو غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ اس مرتبہ صورتحال اس لیے بھی دھماکہ خیز ہے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم نے طے کرلیا ہے کہ جتھوں کے ذریعے حکومت الٹانے کی کوشش کی 
گئی تو اتحاد میں شامل جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کو فوری طور پر اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دے دیں گی ۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس حوالے سے تیاریاں بھی شروع کی جا چکی ہیں ۔دیکھنا ہوگا اس حوالے سے مختلف اداروں کا کردار کیا ہوگا ؟ عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ایسے بیانات سے (جو یقیناً سرخ لکیر کو پار کرنے کے زمرے میں آتے ہیں) تمام اداروں کو متنازع بنا چکے ہیں ۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو بھی اداروں سے سخت گلہ ہے یہ کہا جارہا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کیے جانے والے سخت فیصلوں کے دوران اداروں کی جانب سے جو سپورٹ ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی ۔ الٹا اب تک عمران خان کو غیر معمولی رعائتیں دی جارہی ہیں ۔ کئی طرح کے مقدمات کی فائلیں تیار پڑی ہیں مگر عدالتوں کا رویہ دیکھ کر دائر نہیں کیے جارہے ۔ کہا جارہا ہے عمران خان نے جس طرح سات نشستوں سے الیکشن لڑا ، چھ پر جیتے جو اب پھر خالی کرنا ہوں گی یعنی قوم کے وقت اور سرکاری خزانے کا خالصتاً زیاں، اگرچہ یہ سب قانون کے دائرے کے اندر تھا لیکن یہی حرکت مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کے لیڈر نے کی ہوتی تو عدالتوں نے کسی بھی جانب سے آنے والی صرف ایک درخواست پر یا ازخود نوٹس لے کر گائیڈ لائن جاری کردینا تھی کہ ایک بندہ ایک سیٹ پر ہی الیکشن لڑ سکتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی مخالفانہ کمپین نہ بھی چلائے تو اس وقت گھروں ، دکانوں ، فیکٹریوں میں بجلی کے بل حکومتی اتحاد خصوصاً ن لیگ کا ووٹ بنک برباد کرنے کے لیے مہلک ہتھیار کا کام کررہے ہیں۔ دوسری عام شہری جیسے ہی اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں پیٹرول پمپوں پر روک کر مہنگا پٹرول ڈلواتے ہیں تو ایک دفعہ پھر حکومتی ووٹ بنک میں نقب لگ جاتی ہے ۔اسی صورتحال کے بھانپتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت کے لیے سیاسی ساکھ بحال کرنے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے 10 ماہ کافی ہیں۔ہوسکتا ہے ایسا ہی مگر اس کے باوجود کوئی سیاسی جماعت سیاسی عمل سے لاتعلق نہیں رہ سکتی ۔ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے بھی بہت پہلے سے سیاسی سرگرمیوں میں تسلسل نہیں رکھ پا رہی پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بری طرح سے شکست وریخت کا شکار ہے۔ اسحق ڈار اور مفتاح اسماعیل کے درمیان کھلی جنگ چل رہی ہے ۔ آرمی چیف کو توسیع دینے کے قانون کے حوالے سے شدید کھینچا تانی جاری ہے۔ پہلے خبر شائع کرائی جاتی ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون کو ختم کرنے پر غور کررہی ہے۔ اگلے ہی روز وزیر دفاع خواجہ آصف میڈیا پر آکر بیان دیتے ہیں ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ، پھر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس واضح موقف کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں کہ مدت ملازمت میں توسیع روایات سے ہٹ کر کیا جانے والا ایک اقدام ہے جو سپریم کورٹ کی مداخلت سے ممکن ہوا تھا ۔ اس لیے یہ قانون برقرار نہیں رہنا چاہیے ۔اب یہ بات کوئی راز نہیں رہ گئی کہ نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سارے شکوے تاحال دور نہیں ہوسکے ۔ ضمنی انتخابات سے پارٹی قیادت عملًا لاتعلق رہی۔ مریم نواز لندن چلی گئیں تو حمزہ شہباز طبیعت کی خرابی کا کہہ کر گھر سے ہی نہیں نکلے ۔ پارٹی میں نظم و ضبط کا فقدان ہونے کے سبب شریف خاندان سے ہٹ کر جتنے بھی عہدیداران ہیں وہ بے اختیار ہیں اور دھڑے بندیوں کے سبب خود اپنی عزت بچانے کے لیے کسی بھی معاملے میں ایک حد سے آگے نہیں جاتے ۔ پی ٹی آئی اور دیگر مخالف قوتوں کے بجائے خود پارٹی کے اندر ہی ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیا جارہا ہے۔ ان حالات میں ورکر ز تو کیا ارکان اسمبلی بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں ۔  نواز شریف کی پاکستان واپسی کا معاملہ بھی ایک معمہ بن چکا ہے ۔ ان حالات میں کہ جب ن لیگ کے لیے سیاست سے لے سڑکوں تک انتہائی متحرک اور جارحانہ انداز اختیار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے ایسے میں پارٹی کا اندرونی خلفشار ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کم ہوئی مگر اس نے اپنی تنظیموں کو آج بھی قائم رکھا ہوا ہے جس کا پھل ملتان میں موسی گیلانی کی کامیابی کی صورت میں ملا۔ ملیر کراچی میں پیپلز پارٹی کے عبد الحکیم بلوچ نے عمران خان کو شکست فاش سے دو چار کردیا۔ اسی طرح یہ مولانا فضل الرحمن کی تنظیمی صلاحیتیں ہی ہیں کہ جس نے جے یو آئی کو ایک اہم سیاسی قوت بنا رکھا ہے۔ پی ڈی ایم کی ساری رونق بھی جے یو آئی کی سٹریٹ پاور کے دم سے ہی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی صورتحال بند گلی کی جانب جارہی ہے۔ کوئی بھی فریق دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اکتوبر ، نومبر ملکی سیاست کے حوالے سے فیصلہ کن قرار دئیے جارہے ہیں ۔ سو کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی شطرنج کی اس بساط پر چالیں چلنے والے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی کھلاڑی  کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ۔