بنگلہ دیش میں سولہ دسمبر کے بعد کیا ہوا؟

بنگلہ دیش میں سولہ دسمبر کے بعد کیا ہوا؟

16دسمبر ایک بار پھر آکر گزر گیا۔ پچاس برس کے بعد پہلی بار سرکاری طور پر 1971ء کو پاک بھارت جنگ کے حوالے سے مشرقی پاکستان میںغیر بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں (بہاریوں) کے قتل عام کاپاکستان میںکھل کر چرچا ہوا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے نے اپنے واقعات کا خوب خوب ذکر کیا، جو مشرقی پاکستان میں 25 مارچ کے بعد رونما ہوئے۔اس سال پہلی بار ان افراد کی خوب پذیرائی کی گئی جنہوں نے پاک فوج کی مدد کرتے ہوئے بھارتی حملہ آوروں اور مکتی باہنی کا مقابلہ کیا تھا اور ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ غیر بنگالیوں کے جذبہ حب الوطنی کی گواہی فوجی ہی دے سکتے ہیں، جو مشرقی پاکستان کے محاذ پر متعین تھے۔سب سے پہلے مخصوص اصطلاح ’’بہاری‘‘ کو سمجھتے ہیں۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد جو مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر مشرقی پاکستان آئے تھے، ان میں بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان تھے۔ آنے والوں میں یوپی، سی پی، بہار، آسام، کلکتہ اور مرشد آباد کے لوگ شامل تھے۔ شروع شروع میںمقامی بنگالیوں نے ان مہاجرین کو ’’باہری‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کیا جو آگے چل کر اور بگڑ کر بہاری بن گیا۔ چوں کہ مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد بھارت کے صوبہ بہار سے آئی تھی، اس لیے پاکستان میںعام طور پر یہ تاثر ابھرا اور آج بھی قائم ہے کہ مشرقی پاکستان ہجرت کرکے آنے والے سب مہاجرین بہار سے آئے تھے، جب کہ ایسا درست نہیں تھا۔ اب آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سال 16دسمبر کے آنے سے قبل ہی پاکستان کے عسکری ادارے نے 1971ء کے حوالے سے کیا کچھ کہا۔ سب سے پہلے تو انہوںنے ان تمام لوگوں کو پاکستان بھر سے تلاش کرکے جمع کیا، جنہوں نے آرمی آپریشن کے بعد سے سقوطِ ڈھاکہ تک پاکستان کے نیم فوجی ادارے ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورس میں شمولیت اختیار کی تھی، ان میں سے بعض جنگی قیدی بن کر پاکستان آئے تھے اور بعض 1973-74ء میں منتقلی سکیم کے تحت لائے گئے تھے۔ اور مختلف صوبوں میںبہاری کالونیوں میںبسائے گئے تھے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جن لوگوں کو پنجاب اور کے پی کے کے مختلف اضلاح میں بسایا گیا تھا، وہ آج بھی وہیں رہ رہے ہیں اور سندھ منتقل نہیںہوئے۔ ای پی سی اے ایف پی کے یہ لوگ اب مستقل پاکستان میںرہ رہے ہیں۔ عسکری ادارے نے ان کی اور مشرقی پاکستان میںاس وقت بسنے والے بہاریوں کی وطن کے لیے قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ اس کی بازگشت میڈیا میںبھی سنائی دی۔ جب کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔
اب تک کئی کتابوں میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ 25مارچ سے آگے کئی مہینوں تک مکتی باہنیوں نے ان غیر بنگالیوں کا لاکھوں کی تعداد میں قتلِ عام کیا تھا۔ دو مہینوں کے بعد پاک فوج نے قابو پالیا تھا۔ اس قتلِ عام کا ذکر تو ہوا مگر یہ خبریںدب کر رہ گئیں اور کسی حکومت نے اس کا ذکر بھی مناسب نہیںسمجھا۔ محب وطن پاکستانیوں کے کرب کی اصل داستانیں تو تب شروع ہوئیں جب 16دسمبر 1971ء کو پاک فوج جنگ ہار گئی اور مکتی باہنیوں کو روکنے والا وہاں کوئی نہ رہا۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد مکتی باہنی (آزادی کی فوج) نے پورے بنگلہ دیش میںچن چن کر غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کیا۔ ڈھاکہ کے علاقے میرپور میںہر جگہ اور خاص طور پر پالابی کے میدان میں مردوں کو جمع کیا گیا۔ اسی طرح میمن سنگھ، چاٹگام، کھلنا، پاربتی پور وغیرہ میںبھی یہی کیا گیا۔ مردوں اور اکثر بچّوں کو ٹرکوں اور بسوں میں لاد کر یا تو قتل گاہ لے جایا گیا یا سینٹرل جیل میں بند کردیا گیا۔ قتل گاہ جانے والوں میں سے کوئی بھی واپس نہیںآسکا۔ بعض شہروں میںجب مردوں کو قطار میں کھڑا کیا گیا تو فائرنگ سکواڈ نے وہیں پر گولیاں برسا کر معصوم لوگوں کو ہلاک کردیا۔ بچّے، خواتین اور بچے کھچے لوگوں کو گھروں سے نکال کر کھلے میدان میں ڈال دیا گیا۔ عالمی ریڈ کراس کمیٹی نے ان میدانوں میں ان کے لیے عارضی طور پر جھگیاں بنادیں۔ مارچ اور 16دسمبر کے قتلِ عام میں جو بچ گئے تھے، وہ ان کیمپوں ہی میںمقیم رہے۔ تاوقتیکہ عالمی ریڈ کراس کمیٹی نے ایک سروے کیا، جس کے مطابق تمام کیمپوں میںمقیم لوگوں کی تعداد پانچ لاکھ چالیس ہزار نکلی۔ ان تمام کے تمام لوگوں نے پاکستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جب 1973ء میں دہلی میں تینوں ممالک کے مابین سہ فریقی مذاکرہ ہوا جس میں یہ سمجھوتا پایا کہ بھارت کی قید سے پاکستانی افواج کو پاکستان منتقل کیا جائے گا۔ جب بھارت اور بنگلہ دیش کے وفود نے بنگلہ دیش میں پھنسے رہ جانیوالے غیربنگالیوں کی بات کی تو پاکستانی وفد کے سربراہ عزیز احمد نے انھیں لینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں تعطل پیدا ہوا، بعد میں وزیراعظم بھٹو کی مداخلت پر پاکستانی وفد نے تمام غیربنگالیوں کو تو لینے سے انکار کردیا، مگر تھوڑی تعداد کو لینے پر رضامندی ظاہر کردی۔ مزید رکاوٹیں ڈالنے کے لیے پاکستان نے چار کیٹیگری بنائی کہ اس کے اندر رہ کر غیر بنگالیوں کو قبول کیا جائے گا۔ 1: مرکزی حکومت کے ملازمین 2: مغربی پاکستان کے ڈومیسائل رکھنے والے لوگ 3: منقسم خاندان 4: ہارڈ شپ کیٹیگری۔
ان کیٹیگریز کے تحت منتقل ہونے والوں میں بہت سے لوگ مغربی پاکستانی تھے۔ غیر بنگالی (بہاریوں) کی بڑی تعداد وہیں کیمپوں میں رہ گئی۔ بعد میں 1988ء حکومتِ پاکستان اور رابطہ عالمی اسلامی کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا، جس کے تحت کیمپوں میں رہ جانے والے ڈھائی لاکھ لوگوں کو منتقل کرکے پنجاب میںآباد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت رابطہ ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ جس میںحکومت پاکستان نے 25کروڑروپے اور پھر رابطہ ٹرسٹ نے بھی ایک خطیر رقم عطیہ کی، جو پاکستان کے بینک میں ہی جمع ہے۔ نائن الیون کے بعد اس رقم کو منجمد کر دیا گیا تھا۔