گدھوں کی کمیٹیاں

گدھوں کی کمیٹیاں

پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ دیکھی جائے تو جس بھی سانحہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی اس میں سچ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا اور سالہا سال بعد بھی کمیٹی نہ نکل سکی۔ آسان لفظوں میں وطن عزیز میں جس مدعے کو دفن کرنا ہو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو وقتی طور پر اس واقعہ یا سانحہ کی شدت کو کم کر دیتی ہے اور متاثرین سمیت پورا معاشرہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتا ہے اور سچ کبھی باہر نہیں آتا۔ محتاط اندازوں کے مطابق قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہزاروں کمیٹیاں بنیں لیکن ان کے نتائج کبھی نہ نکل سکے بلکہ ان کمیٹیوں کی بدولت وہ سانحات ہی ماضی کا قصہ بن گئے۔
وطن عزیز کی چیدہ چیدہ کمیٹیوں میں بابائے قوم محمد علی جناح کی ایمبولینس کی خرابی پر بھی کمیٹی بنی اور آج تک نہ نکل سکی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی پنڈی کے بھرے جلسے میں شہادت کی تحقیقات کے لیے بھی کمیٹی بنی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ یحییٰ خان کی صدارت میں قائداعظم کا پاکستان دولخت ہو گیا اس کی تحقیقات کے لیے بھی کمیٹی بنی لیکن یہ کمیٹی بھی نہ نکل سکی۔ البتہ پاکستان توڑنے والے یحییٰ خان کو سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ پھر ضیاالحق کا مارشل آیا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کر کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی دے دی گئی۔ پھر ضیاالحق کا طیارہ بہاولپور میں تباہ ہو گیا، امریکی سفیر اور ضیاالحق سمیت کئی فوجی لقمہ اجل بنے۔ اس حادثہ کی تحقیقات کے لیے بھی کمیٹی بنی جو آج تک نہ نکل سکی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچانے والے سازشیوں کی تلاش میں کمیٹی بنی لیکن یہ کمیٹی بھی سازشوں کا شکار ہو گئی۔ بے نظیر شہید لیاقت باغ پنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنیں اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنی نامزد مرکزی ملزم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف بھی اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن اس کمیٹی کا نتیجہ نہ نکل سکا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنی اس کا تو نتیجہ نہ نکل سکا البتہ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہی چلتا کر دیا گیا۔ ماضی میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جسٹس ملک قیوم مرحوم کے ساتھ بے نظیر شہید کو نااہل کرانے کے لیے ٹیلیفونک گفتگو پر بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی لیکن بے نتیجہ رہی۔ بے نظیر شہید ہو گئیں اور شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم اور تو اور بے نظیر شہید کے خاوند بھی شہباز شریف کے حکمران اتحاد کا حصہ بن گئے۔ حال ہی میں درجنوں آڈیو ویڈیو لیکس کی تحقیقات پر کمیٹیاں بنیں لیکن بے سود۔
سانحات ہزارہ کمیونٹی سے لے کر اے پی ایس حملہ سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے ان گنت واقعات میں لقمہ اجل بننے والے ہم جیسے کیڑے مکوڑوں یعنی ہم عوام پر گزرنے والے
سانحات کی تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں لیکن ان کی رپورٹس بھی زندہ دفن ہو گئیں اور کبھی منظر عام پر نہ آ سکیں۔ حال ہی میں عمران خان قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے لیکن اس کی تحقیق پر بننے والی کمیٹی بھی نہ نکل سکی بلکہ ہمارے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے حملہ ہی کو مشکوک قرار دیا۔ لگتا ہے یہ کمیٹیاں ملزمان کو کلین چٹ دینے کے لیے بنتی ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ حال ہی میں بارکھان بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے خلاف کچھ کیڑے مکوڑوں (ہم عوام میں سے) کو اغوا اور قتل کے الزامات پر تحقیقات کے لیے کمیٹی بنی وہ تو نہ نکل سکی لیکن مغویان میں سے کچھ کی لاشیں کنویں سے مل گئیں۔ اب وہ بھیک مانگ رہے ہیں کہ کھیتران کے قبضے میں ان کے 5 بچوں کو ہی بازیاب کرا دیا جائے جس کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے لیکن تحقیقات کے لیے بنی یہ کمیٹی بھی شاید نہ نکل سکے۔ اس جیسے بے شمار سانحات پر کمیٹیاں بنیں لیکن سب بے نتیجہ رہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے چیک ادب سے درج ذیل تحریر سے قارئین کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔
کسی جنگل میں ایک خرگوش کی اسامی نکلی۔ عرصہ سے بے روزگار ایک ریچھ ہر جگہ عرضی بھیجتا رہتا تھا، اُس نے اِس اسامی کیلئے بھی درخواست جمع کرا دی۔ اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ ایک دن ریچھ کو پتہ چلا کہ جنگل میں ریچھ کی اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش ریچھ بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس زیادتی کا ذکر کیا، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔ دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔ کمیٹی نے غلط دعویٰ دائر کرنے پر ریچھ سے پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔ کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے کسی بھی رد و بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر برقرار اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیسے ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے رکن چیتے در اصل گدھے تھے اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔
ہمارے ملک میں بننے والی کمیٹیوں کی بھی یہی روداد رہی ہے اس لیے ان سے نتائج کی توقع کرنا بھی حماقت ہی ہو گی۔ جب تک گدھوں پر مشتمل کمیٹیاں بنتی رہیں گی اور کمیٹیوں میں حقیقی نمائندے نہ ہوں گے نتائج ایسے ہی نکلیں گے۔ پس سمجھ لیجیے کہ سانحہ کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو، اس کی تحقیقات کے لیے جب بھی کمیٹی بنی اس کا مقصد سچ کو دفن کرنا ہو گا نہ کہ حقائق کو سامنے لانا۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔