خالی ہے نیام …

خالی ہے نیام …

سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھے بھارت نے یکایک پینترہ بدل کر بدترین اسلاموفوبی مظاہر پر عمل شروع کردیا ہے۔ مودی کی ناکام حکمرانی سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ازلی حربہ مسلمانوں سے نفرت کو ہوا دینا رہا ہے۔ مذہبی جنون کا نشہ چڑھاکر ہندو جتھے کھلے چھوڑ دیے جانے کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے۔ مودی کبھی پوجا پاٹ کرتا کبھی گنگا میں اشنان کرتا دکھایا جاتا ہے۔ (ادھر ہمارے والوں کو مساجد میں کم کم دیکھا جاتا ہے۔ مندروں، گوردواروں کی توسیع وتحفظ، ان کے تہواروں میں شرکت کرتے، مساجد کو خشمگیں نظروں سے دیکھتے خبروں میں ویڈیوز میں ضرور دیکھے جاسکتے ہیں۔) بھارت شدید بے روزگاری، صحت وتعلیم کے بگڑے حالات اور 33 لاکھ بچوں کی غذائی قلت کا شکار ہوا پڑا ہے۔ بھارت 2021ء میں عالمی بھوک انڈکس میں 116 ممالک میں 101 نمبر پر تھا! مگر پوری قوت مسلمانوں کو کچلنے کی للکاریں دینے میں صرف کر رہا ہے۔ ’جسٹس فار آل‘ کے ویبی نار میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی چار بھارتی ریاستوں میں بالخصوص مسلمانوں (ودیگر اقلیتوں) کے سر پر قتل عام کی لٹکتی تلوار بارے تنبیہہ کی ہے۔ بھارت میں ہر دیوار مذہبی کانفرنس میں ہندو پیشوا نے کم ازکم 20 لاکھ مسلمان قتل کرنے کا ہدف دیا ہے اور قاتلوں کو ڈالروں سے بھر دینے کا لالچ بھی دیا ہے۔ گجرات میں مودی کے ہاتھوں 2002ء کا قتل عام ماڈل دہرائے جانے کا اندیشہ ہے۔ قبل ازیں مسلمان تعلیم یافتہ، متحرک خواتین کی نیلامی اور بولیاں لگانے کی مذموم خبریں انٹرنیٹ پر آر ایس ایس نے جاری کیں۔ ان تمام شرمناک، شر انگیز حرکتوں پر بھارتی عدلیہ، پولیس، خفیہ ادارے گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے رہے۔ جسٹس فار آل کے ’بھارت کو فاشزم سے بچایا جائے‘ ویبی نار کو بھارتی آئی ٹی سیل نے ہیک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ہندو فاشسٹ گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، یوٹیوب میں چڑھے بیٹھے اس کے درپے رہے۔ امریکا میں ہندو تنظیمیں بھارتی جنونی مذہبی تنظیموں کی سہولت کار اور مؤید ہیں۔ فراخدالانہ چندے فراہم کرتی ہیں۔ ان پر دنیا بھر میں دہشت گردی، انتہاپسندی، سہولت کاری کی کہیں انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضے، ظلم وجبر کی اذیت ناک داستانیں کسی ماتھے پر شکن نہیں ڈالتیں۔ جموں کشمیر کے تمام کالجوں میں ہندو مذہبی مراسم عبادت ’سوریہ نمسکار‘ (سورج دیوتا کو سلامی) مسلمان اساتذہ، طلباء اور ملازمین پر لاگو کی گئی ہے۔ حکم عدولی پر طلباء پر تشدد کیا گیا ہے۔ کیا طالبان جن کا لقب ہی انتہاپسند اور دہشت گرد رہا 20 سال، کبھی سکھوں ہندوؤں کو نماز پر مجبور کرتے دیکھے گئے؟ سوریہ نمسکار کے شرانگیز احکام دیکھیے۔ دوسری جانب مرکزی جامع مسجد سری نگر جمعہ کی نماز سے کئی ماہ سے محروم رکھی گئی ہے۔ گڑ گاؤں میں جمعے کی نماز میں غنڈوں کی مداخلت کی کھلی چھٹی رہی۔ کشمیر کے غیور مسلمان سرتاپا احتجاج ہیں۔ پاکستان کشمیر پر خصوصی غضِ بصر کا اہتمام کیے رکھتا ہے۔ اپنے ملک کے کونے کھدروں میں مندروں کی صلاح وفلاح کے غم میں گھلنے والے شہ رگ کی مساجد پر انصاف کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ تحریک انصاف ہو یا انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار!
ایک طرف بھارت کا مذہبی جبر، ظلم وتعدی، جور وجفا کا یہ گھناؤنا منظر ہے۔ دوسری طرف ہم پاکستانیوں کی خوشامدی، چاپلوس، تملق آمیز غیر آبرومندانہ پالیسی ہے (کشکول کی مجبوری بنا پر)۔ ادھرافغانستان میں غیور، حریت پسند، آزاد مملکت کے شایان شان رویے ہیں ۔ اشرف غنی حکومت ٹوٹنے اور اس کے فرار پر افغان پائلٹ انجینئر 164 میں سے 83 جہاز، ہیلی کاپٹر لے اڑے جو اب ان ممالک کے قبضے میں ہیں جہاں یہ جا اترے تھے۔ وزیر دفاع اسلامی امارت افغانستان ملا محمد یعقوب نے ازبکستان، تاجکستان سے یہ جہاز واپس طلب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دیںگے کہ ہمارے جہاز دوسرے ممالک میں ہوں اور وہ انہیں استعمال کرتے رہیں۔ ہم ان ہمسایہ ممالک سے کچھ کمزور تو ہوںگے مگر بزدل نہیں ہیں۔ ہم اپنے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ایک ایک پرزے کا حساب لیںگے۔ ابھی عزت واحترام سے کہہ رہا ہوں کہ جہاز لوٹا دیں۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ ہمیں جہاز واپس لینے کے لیے ہر ممکنہ انتقامی اقدامات پر مجبور نہ کیا جائے! (یوں تو امریکا بھی ان کے 10 ارب ڈالر دبائے نجانے کس دن کا منتظر ہے!) افغان پائلٹ اور انجینئروں کو کہا کہ آپ واپس آ جائیں، وہاں آپ کو عزت، وقعت نہیں ملے گی۔ آپ اپنے ملک کا سرمایہ ہیں، ہم آپ کو احترام دیںگے۔ (11 جنوری۔ وائس آف امریکا)
 آزادیٔ اظہار کا سلیقہ سکھانے کو طالبان نے افغان پروفیسر فیض اللہ جلال کو گرفتار کرلیا۔ (اٹھایا، یا اغوا نہیں کیا۔) یہ حضرت ٹیلی وژن پر بدزبانی، بدکلامی میں طاق، مغلظات کی بوچھاڑ اسلامی امارت پر کیا کرتے رہے۔ اشتعال انگیزی اور بے چینی پھیلانے پر کابل سے گرفتار کیا گیا۔ رہائی پر یورپ کے ریڈیو لبرٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے پروفیسر نے بتایا کہ مجھے 4 دن قید میں مہمان کی طرح رکھا۔ یونیورسٹی پروفیسر ہونے کی بنا پر عزت واحترام کا سلوک کیا گیا۔ زیادہ تر طالب پڑھے لکھے تعلیم یافتہ تھے۔ مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو آزادیٔ اظہار کا حق دیتے ہیں۔ مگر یہ اسلامی تہذیب کے پیرائے میں ہو، مغربی نہیں۔ ضرور سچ کہیے۔ (ہمارے والوں کو بھی آدابِ گفتگو کی تربیت درکار ہے!) آزادی کا عالم تو یہ ہے کہ کابل کے ریڈ زون میں آزادی پرست، این جی او سرشت عورتیں طالبان کے مقابل مسلسل چیختی چلاتی رہی ہیں۔ امریکا کے خلاف کابل میں یوں مظاہرے کب ممکن ہوئے ان کے دور میں۔
مری کا سانحہ ملک میں گورننس، انتظامی امور میں بدنظمی، کام چوری بدعنوانی کو بھرپور طریقے سے بے نقاب کرگیا ہے۔ پورا نظام صرف تنخواہیں بٹورنے، ڈنگ ٹپاؤ، مٹی پاؤ پر استوار ہے۔ یہاں تک کہ انجانے میں 23 افراد مٹی پاؤ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بیان بازیوں اور سوشل میڈیا پر ٹویٹریاں بگھارنے سے ملک چلا کرتے تو تحریک انصاف مریخ پر جھنڈے گاڑ چکی ہوتی۔ مگر اب عمران خان جو کئی سال کہتے رہے سونامی آ جائے گا، وہ سچ ثابت ہوگیا آخر کار۔ یادش بخیر، خان صاحب ’سونامی‘ لانے کا تذکرہ فرماتے تھے تو ہمارے دل مٹھی میں آ جاتے۔ وہ قرآن، تاریخ سے نابلد، نہیں جانتے تھے شاید، کہ طوفانِ نوحؑ سونامی کے عذاب کی صورت آیا تھا۔ سونامی دودھ شہر کی نہریں بہانے کا استعارہ نہیں، اللہ کا عذاب، تباہی وبربادی لے کر آتا ہے۔ انڈونیشیا، جاپان کی مثالیں محفوظ ہیں حالیہ تاریخ کی۔ تاہم ان کا کہا پورا ہوا۔ صنعتیں اجڑ گئیں۔ بجلی، گیس، پیٹرول کی ہوش ربا مہنگائی نے قوم کی حالت ابتر کردی۔ تجاوزات کے نام پر جابجا سونامی نما کھنڈرات، بربادی کے ڈھیر لگا دیے۔ ابھی تو اس طرف توجہ دینے کی نہ فرصت ہے نہ فکر کہ بھارت کے ہاتھوں جس طرح خطۂ کشمیر کے جنگلات، گلیشیئر اور پانی کے ذخائر کو قصداً تباہ اور ضائع کیا جا رہا ہے، آنے والا وقت ماحولیاتی خطرات سے ہمیں بے طرح دوچار کرنے کو ہے۔ حکومتیں پلاننگ کے فقدان، منصوبہ بندی کے لیے عدیم الفرصت، عدم احتساب اور کھینچا تانی پر کاربند ملک کو بند گلی میں دھکیل رہی ہیں۔ جو عمران خانی حکومت گراکر باری لینے کو لائن میں لگے کھڑے ہیں وہ کون سے دودھ کے دھلے ہیں!
ایک ہوش ربا خبر یہ بھی ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر نے امریکا میں ناکارہ انسانی دل کی جگہ ایک امریکی مریض کے سینے میں خنزیر کا دل جڑ دیا ہے! یہ دل خوب فراٹے بھر رہا ہے۔ (سینہ امریکی ہے۔) خنزیر کے دل سے وہ (جینیاتی حصہ) Genes  نکال دیں جو انسانی سینے میں جڑنے سے انکاری تھیں۔ وہ جین بھی نکال دی جس کی بدولت اندر خنزیری اعضاء اگ آنے کا امکان تھا۔ ڈاکٹر محی الدین کی خوشی کا کوئی عالم نہیں کہ: ’یہ ایک انقلابی مرحلہ ہے! یہ تجربہ کامیاب رہا تو بہت سہولت ہوجائے گی!‘ یہ خنزیری سہولت کاری امریکیوں ہی کو مبارک ہو۔ کوئی ان ڈاکٹر صاحب کو امریکا ہی میں روک رکھے۔ ٹرمپ کو ضرورت پڑے تو یہ علاج فراہم کردیں۔ پاکستان اب نہ ہی آئیں تو بہتر ہے! جسے علاج درکار ہو وہ وہیں جا بسے!
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!

مصنف کے بارے میں