صدارتی نظام کی باتیں؟

Mohsin Goraya, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

 نئے سال میں یخ بستہ موسم کے باوجود سیاسی فضا میں افواہوں کی گرم بازاری جاری ہے،اسلام آباد میں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں صدارتی نظام کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں سوشل میڈیا پر تو طوفان بپاہے،تاہم اس حوالے سے کسی مصدقہ ذرائع نے تاحال تائید کی نہ تصدیق،یادش بخیر جب نواز شریف کی حکومت کو چاروں جانب سے خطرات کا سامنا تھا تب بھی اس نوعیت کی افواہیں سر اٹھاتی رہیں مگر اپنی موت آپ مر کروقت کی گرد میں دفن ہو گئیں،نواز شریف کے بارے میں تو امیر المومنین بننے کی بھی افواہ سننے میں آئی مگر ریاستی اداروں نے سب افواہوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا دیا،آج جمہوریت کا سہرااسی ریاستی ادارے کے سر بندھتا ہے جس پر من مانی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جاتا ہے،ورنہ ماضی قریب میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں جاری سیاسی مخاصمت خانہ جنگی کا اشارہ دے رہی تھی،لیکن قومی اور ملکی سلامتی کے ضامن ادارے نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف افواہوں کو باطل ثابت کیا بلکہ سیاستدانوں کا قبلہ بھی درست رکھنے کیلئے کردار ادا کیا،جس کے نتیجے میں جمہوری حکومتوں کوآئینی مدت پوری کرنے کا موقع میسر آیا۔
 اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو چلتا کرنے کی کوشش میں بے دلی کا عنصر ابتداء سے ہی نمایاں ہے،پیپلز پارٹی نے جب ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن دیا اور پنجاب میں عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی تو مسلم لیگ ن نے تعاون سے انکار کر دیا،پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وفاق میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز دی گئی،مگر ن لیگ نے تحفظات کا اظہار کیا،شنید ہے اب نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی تجویز کی حمائت کر دی ہے،شہباز شریف نے اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کیا مگر آصف زرداری نے اس مرتبہ وزارت عظمٰی مانگ لی،شہباز شریف نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی اپنی ہی دی ہوئی تجویز سے پسپا ہو گئی،پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے وزارت اعلیٰ نئے اتحادیوں کو دینے کی بات کی مگر شہباز شریف اس پر بھی نہ مانے اور وزارت اعلیٰ کو اپنی پارٹی کا حق قرار دیا،اسمبلی میں ارکان کی تعداد کو دیکھا جائے تو شہباز شریف کی بات درست بھی تھی،مگر اس پیشکش کے بغیر اپوزیشن اتحاد کو مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکتی تھی اور نہ ملی جس کے باعث پنجاب کا میدان چھوڑ کر اسلام آباد کو میدان بنانے کا فیصلہ ہوامگر وہاں بھی اقتدار کا طمع راہ کی دیوار بن گیا۔
 اس میں شک نہیں کہ ملک میں مختلف قسم کے نظام اپنائے گئے مگر ملک کو معاشی استحکام اور عوام کو ریلیف دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا،یہ سوچنے کی زحمت کسی نے نہ کی کہ ناکامی کی وجوہات کیا ہیں اپنی ناکامی اور نا اہلی کا الزام نظام پر دھر کر سب نے ظل الٰہی بننے کی کوشش کی،حالانکہ یہی نظام دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رائج ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں،واحد وجہ وہاں کی قیادت کا مخلص اور دیانتدار ہونا ہے،کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ’’نظام کوئی برا نہیں ہوتا بد ترین نظام اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ خیر کی سبیل نکال لیتے ہیں لیکن بہترین نظام نا اہل قیادت کے ہاتھ میں دیا جائے تو وہ نظام ملک اور عوام کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا‘‘ہماری ناکامی اور تنزلی کی ایک بڑی وجہ پالیسیوں اور نظام میں تسلسل نہ ہونا ہے،جبکہ جمہوریت ایک مسلسل منظم اور مربوط نظام ہے،مگر ہمارے ہاں حکومت بدلتے ہی پالیسی نظام حتیٰ کہ منصوبے تک تبدیل کر دئیے جاتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت بدلنے سے چہرے بدلتے ہیں ان کا نظام اور پالیسی تسلسل کیساتھ چلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے دیگر ممالک،صنعتکار اور درآمد برآمدکنندگان اعتماد کیساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نئے نئے معاہدے ہوتے ہیں۔ مملکت خداداد میں جمہوریت کو بہترین طرز حکومت تسلیم کیا جاتا ہے مگر یہ نظام بھی ہماری سیاسی قیادت کا مزاج اور عوام کا حال ٹھیک کرنے میں ناکام رہا ہے،کوئی جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتا رہا اور کوئی جمہوریت کی آڑ میں بادشاہ بننے کی فکر میں مبتلا رہا،اسی وجہ سے جمہوریت کی اصل خوبیاں اختراعی تشریح میں غرق ہو گئیں،آج اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیکر حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور آئے روز نت نئی سازش کے تانے بانے بنے جاتے ہیں مگر اس طرز عمل سے صرف اختلافات کی گرد اڑائی گئی مگر جمہوریت کا حسن ماند پڑ گیا،سمجھ سے بالا ہے صدارتی نظام کا واویلا کرنے والوں کو یہ کیوں نہ سوجھا کہ اگر یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعے ہواتو اس کیلئے مکمل اکثریت کی ضرورت ہو گی جو حکومت کے پاس نہیں سادہ اکثریت سے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی،اور اگر یہ کام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا تو اول تو آرڈیننس کی مدت فقط تین ماہ ہوتی ہے،اور تین ماہ میں صدارتی نظام لانے کے خواہشمند کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے،آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج بھی ہو سکتا ہے اور ملک کی اعلیٰ عدالت آئین کے منافی کسی بھی آرڈیننس کی تائید نہیں کرے گی،توسیع دے کر اس نظام کو زیادہ طول نہیں دیا جا سکتا،لہٰذا یا تو صدارتی نظام کی بات کرنے والے آئین سے ناواقف ہیں یا یہ خود ان کی خواہش ہے، ایسا کوئی منصوبہ زمین پر عمل پذیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
خواہش کو خبر بنانے کا رواج ہمارے ہاں بہت پراناہے،مگر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اسی شاعرانہ تخیل کے مصداق یہ خواہش بھی ارمان ہی رہے گی،حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مفت مشورہ ہے اگر عزیز ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی ہے تو جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں،اسی نظام میں ملک کی بقاء اور عوامی یکجہتی ممکن ہے،ورنہ قوم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ جائے گی،ہم نے بہت تجربات کر لئے نتیجے میں ہم خود ہی عبرت کا نشان بنے بیٹھے ہیں،انہی تجربات کا نتیجہ ہے کہ آج تک ہم کسی بلدیاتی نظام پر متفق نہ ہو سکے،ہر کسی نے اس حوالے سے تجربات کئے اور ہر تجربہ آنے والوں نے ملیا میٹ کر دیا،حالانکہ جیسا تیسا بھی نظام تھا اس کے تحت اگر اختیار و اقتدار نچلی سطح پر منتقل کر دیا جاتا اور پھر راہ میں آنے والی مشکلات کا نئی قانون سازی سے ازالہ کیا جاتا تو آج بہت ہی بہترین نظام ہمارے ہاں رائج ہوتا اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو رہے ہوتے،مقامی حکومتیں دراصل جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیں،اگر آج قومی سیاستدانوں پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے بہت سے سیاستدان بلدیاتی گملوں کی نرسری سے سیاسی چمن کی رونق بنے ہیں،اس لئے خدارا تجربات سے گریز کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کی بنیاد مضبوط کریں پالیسیوں اور نظام میں تسلسل کاعنصر برقرار رہنا ہی عالمی برادری میں پاکستان کو بااعتماد بنا سکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں