پروفیسر مغیث الدین شیخ انتقال کر گئے

پروفیسر مغیث الدین شیخ انتقال کر گئے

لاہور: پروفیسر مغیث الدین شیخ انتقال کر گئے، کافی عرصے سے علیل اور وینٹی لیٹر پر تھے۔

پروفیسر مغیث الدین شیخ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈین بھی رہے۔اس کے علاوہ مغیث الدین شیخ کئی تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔

کورونا وائرس کے باعث وہ نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے ، طبیعت بگڑنے پر گزشتہ روز انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا اور آج پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ، اپنے اہلخانہ اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہزاروں صحافیوں کو سوگوار چھوڑ گئے ۔

پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے درس وتدریس کا آغاز کیا  اورپھر  پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوگئے ۔

کئی دہائیوں تک وہاں صحافتی دنیا کے لیے طالب علم اور استاد کو تعلیم دیتے رہے ۔ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بنے تو  اسے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹیڈیز بنادیا  اور اس کے پہلے سربراہ بنے  اور پھر ڈین آف سوشل سائنسز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔

پنجاب یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی کے دوران وہ قرآن مجید کی قرات کی وجہ سے مشہور رہے ، اس پر قریبی حلقوں میں انہیں ، قاری مغیث الدین شیخ بھی پکارا جاتا رہا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سپیریئر یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے ۔ اس دوران وہ کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھی صحافت کی تدریس کرتے رہے ۔

ملک کی کئی سرکاری ونجی یونیورسٹیوں اور کالجز میں شعبہ صحافت کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان دنوں بھی وہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے وابستہ تھے ۔ کچھ روز پہلے ، پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ،سوشل میڈیا پر اپنے چاہنے والوں کو اطلاع دی کہ  وہ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں اور ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ۔

گزشتہ روز طبیعت بگڑنے پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا  جہاں وہ ،اپنے اہلخانہ سمیت میڈیا سے وابستہ ہزاروں صحافیوں اور اساتذہ کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے ۔

پاکستان میں پہلی میڈیا یونیورسٹی کا قیام  پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا خواب تھا ، ان کی کوششوں سے پرویز مشرف دور میں اسلام آباد میں میڈیا یونیورسٹی کے قیام کیلئے کچھ اقدامات بھی سامنے آئے لیکن پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا یہ خواب عملی صورت اختیار نہ کرسکا کورونا وائرس نے ایک اور جان لے لی ۔

ڈاکٹر مغیث الدین شیخ  سپریئر یونیورسٹی میں بھی شعبہ صحافت کے سربراہ کے طور پر وابستہ رہے ، اس کے علاوہ  وہ کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھاتے رہے ۔ کورونا وائرس کا شکار ہونے سے پہلے تک وہ شعبہ تدریس سے جڑے رہے ۔