لوٹے، کھوٹے اور کھوتے

لوٹے، کھوٹے اور کھوتے

قومی سیاست میں ایک مرتبہ پھر لوٹوں ،کھوٹوں اور کھوتوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ، یہ نظرآ رہے ہیں اور کئی جگہوں پر ان کی منڈیاں بھی لگی ہیں ،جس کا بس چل رہا ہے وہ اس بہتی گنگا میں ذوق اور شوق سے ڈبکیاں لگا رہا ہے،کل تک ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلانے والے آج حکومتی پارٹی کے ارکان کو عزتوں اور ٹکٹوں کے وعدوں میں مصروف ہیں،یہ ووٹ کو عزت و توقیر دی جا رہی ہے یا اسکی تحقیر و تذلیل ،قوم سب دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے اب مختلف جماعتوں کا تبدیل ہوا مؤقف بھی سامنے ہے،حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں ہر حربہ آزمانے کو تیار ہیں،تہتر کے آئین اور جمہوریت کی رٹ لگانے والے بھی اس غیر آئینی اور غیر جمہوری کوشش پر ساتھی بنے ہوئے ہیں،مملکت خداداد میں لوٹا کریسی قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گئی تھی،سیاسی وفاداریاں ،اصول اور اختلاف کے بجائے مالی مفادات اور حکومتی نوازشات پر تبدیل کرنے کی روش آزادی کیساتھ ہی رواج پا چکی تھی،مملکت خدا دادمیں اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ حسین شہید سہروردی جیسے وزیر اعظم کو بھی نہ چلنے دیا گیا،ایوبی دور تک ’’تغیر کو ثبات رہا‘‘ ایوب خان پہلے حکمران تھے جنہوں نے اطمینان سے دس سال تک حکمرانی کی ورنہ قائد اعظم تک یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ میری جھولی میں کھوٹے سکے ہیں،لیکن ایوب خان کا اقتدار ڈگمگاتے ہی ان کی جماعت کنوینشن مسلم لیگ تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئی،اہل سیاست کی کم مائیگی اور بے وفائی بارے کسی نے کیا خوب کہا
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
 ایوب خان کے بعد ملک میں پہلی منتخب حکومت ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی،ان کی پارٹی پر گرفت بہت مضبوط تھی اس کے باوجود انہیں بہت سے قریبی ساتھیوں مصطفیٰ کھر،حنیف رامے،مرتضیٰ جتوئی اور دیگر کی بے وفائیوں کا سامنا کرنا پڑا ،پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران تو قطار اندر قطار مختلف رہنمائوں نے پیپلز پارٹی کو خیر باد کہا،پیپلز پارٹی کے بطن سے متعدد پارٹیاں نکلیں ،جنرل ضیا نے عنان اقتدار سنبھالی تو بہت سے درختوں کی شاخوں پر پناہ لئے سیاستدانوں نے اس گھنیرے درخت کی شاخوں پر بسیرا کر لیا جس کا نام جنرل ضیاء الحق تھا،غیر جماعتی الیکشن کے بعد جنرل ضیا مرحوم نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے ان کے ساتھی بن گئے ،ان کی وفات کے فوری بعد ان کی مسلم لیگ حصوں بخروں میں بٹ گئی،نواز شریف نے محمد خان جونیجو کیخلاف بغاوت کر دی،پھر لیگ سے اتنی پارٹیوں نے جنم لیا کہ گنتی مشکل ہے،لیکن نواز شریف چونکہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تھے اس لئے ان کی پارٹی آج بھی قائم ہے۔
 الیکشن سر پرآتے ہی ممکنہ کامیاب پارٹی میں آنے والوں کی لائن لگ جاتی ہے اور انہیں الیکٹ ایبل سمجھ کر قبول بھی کر لیا جاتا ہے اور ٹکٹ بھی دیدیا جاتا ہے، وہ جہاں بھی گیا ’’لوٹا‘‘تو میرے پاس آیاکے مصداق بعض تو ہر الیکشن سے پہلے پارٹی بدلنا فرض گردانتے ہیں،میاں منظور وٹو نے جب سپیکر پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ دیکر اپنا گروپ بنایا اور غلام حیدر وائیں کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائے تو مسلم لیگ (ن) کے ہمارے دوست انعام اللہ نیازی چھوٹے چھوٹے لوٹے لے کر پنجاب اسمبلی میں آ جاتے ،بعد ازاں انعام اللہ نیازی نے ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور پھر تحریک انصاف کو چھوڑ کر ن لیگ میں واپس آ گئے،ایک لوٹے حکمران نے تو لوٹا کے طعنوں سے بچنے کیلئے باتھ روموں سے لوٹے اٹھوادئیے اور لوٹوں کی جگہ مسلم شاور کو دے دی،اردو زبان میں ’’لوٹا‘‘ اسے کہتے ہیں جو ایک جگہ ٹکتا نہ ہو، کبھی دائیں کبھی بائیں لڑھک جاتا ہو، بے اصول اور ڈھلمل یقیناً ایسے آدمی کو بے پیندے کا لوٹا کہنا زیادہ درست ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے اسی پس منظر کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شکار کو ایک لوٹا قرار دیا تھا۔ مولانا کا یہ احسان البتہ اردو زبان پر ضرور رہے گا کہ انہوں نے محض ایک لفظ سے کام نکال لیا، ہمارے یہاں 80 اور 90 کی دہائی اور 2018ء کی سیاست میں لوٹے کا لفظ ایک نئے کروفر کے ساتھ داخل ہوا ہے۔1930 میں مولانا ظفر علی خان نے یہ لفظ پہلی بار ایک سیاستدان ڈاکٹر عالم کے لئے استعمال کیا تھا، جو اپنی پارٹی اور وفاداری بدلتا رہتا تھا۔ پہلے وہ اتحاد المسلمین میں تھا پھر مسلم لیگ میں آیا پھر ہوا کا رخ بدلتے ہی کانگریس میں چلا گیا۔ جب ملک تقسیم ہوا تو پاکستان آ کر مسلم لیگ میں آنے کی کوشش کی لیکن مولانا کا دیا ہوا خطاب اسے پریشان کرتا رہا اسے لوگ ڈاکٹر عالم لوٹا پکارنے لگے۔ 
جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو جمہوری پارلیمانی سیاست میں وزیراعظم ایوان میں اکثریت کی بنیاد پر ہی براجمان رہ سکتا ہے، اگر وہ ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کر سکے تو وہ وزیراعظم نہیں رہتا۔ یاد رہے ماضی کی تاریخ میں عدم اعتماد کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ 1989 ء میں بے نظیر کی پہلی حکومت کے خلاف طاقتور صدر غلام اسحاق خان اورآرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور پنجاب میں نواز شریف حکومت کی بے انتہا کوششوں کے باوجود عدم اعتماد ناکام رہی۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر غلام مصطفے ٰ جتوئی جیسے زیرک سیاست دان نوٹوں سے بھرے بیگ لئے پھر رہے تھے مگر کوئی جیالا بکنے کو تیار نہ ہوا، اس وقت نوٹ نہیں پارٹی اور وفاداری کی سیاست مد نظر تھی، دوسری بار مشرف دور میں وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک لائی گئی وہ بھی ناکام رہی۔ 
 تحریک انصاف حکومت انتخابات اور اس کے بعد کی بے اعتدالیوں سے بچنے کیلئے انتخابی اصلاحات لانا چاہتی تھی جس کے تحت لوٹا کریسی چھانگا مانگا ،سوات اور سیاست میں خرید و فروخت کا راستہ روکا جا سکتا تھامگر ملک کی جمہوریت پسند پارٹیوں اور ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ بلند کرنے والوں کی مخالفت کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا،اور اب تحریک انصاف کے درجنوں ارکان اسمبلی کی بولی لگ چکی ہے ، وہ اپوزیشن کے سیف ہاؤس میں ہیں اور کبھی کبھی سندھ ہائوس میں بھی نظر آتے ہیں،مجبور ہو کر حکومتی پارٹی نے اس بے اعتدالی کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے مگر عدالت عظمیٰ کے ہاتھ آئین نے باندھ رکھے ہیں کہ عدلیہ آئین میں دی گئی مراعات اور سہولیات پر قد غن نہیں لگا سکتی ،حکومت کا موقف بہت واضح ہے اس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے تحریک انصاف کے منشور پر عمران خان کے نام پر ووٹ لئے وہ اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنے میں آزاد ہیں مگر پہلے استعفیٰ دیں اور نئے سرے سے الیکشن لڑ کرآئیں پھر اس جماعت کو ووٹ کریں جسے وہ چاہتے ہوں ،اس تناظر میں 14ویں ترمیم بہت اہم ہے جس کے تحت پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والا اور پارٹی فیصلہ کیخلاف ووٹ دینے والا دونوں نا اہل قرار دئیے جا سکتے ہیں ،گزرے کل میں وفاداری بدلنا ناجائز تھا مگر آج اسے جائز اور اصولی سیاست کو وصولی سیاست کیوں بنایا جا رہا ہے،قوم یہ سوال اپنے سیاستدانوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہے۔

مصنف کے بارے میں