ایک مر تبہ پھر عام آدمی اور مہنگائی

Dr Ibrahim Mughal, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

اپنے گذشتہ کا لم میں زراعت کے حوالے سے عام آ دمی کے مسا ئل پہ لکھنے کے بعد ارا دہ تو تھا کہ خطے کی حا لیہ بنتی بگڑتی صورتِ حا ل پہ لکھو ں۔ لیکن محض دو تین رو ز کے دو ران جس طور مہنگا ئی نے نئے مدا رج طے کئے، تو محسو س کچھ یو ں ہوا جیسے وہ کا لم کا فی تشنہ رہ گیا ہے۔ چنا نچہ اسی کا لم کو آ گے بڑھا تا ہوا وا ضح کر تا ہو ں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے تازہ مانیٹری پالیسی بیان میں مہنگائی میں مز ید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔سٹیٹ بینک کی  رپورٹ کے مطابق مستقبل میں مہنگائی کے منظرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں بالخصوص ایندھن اور بجلی کے ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہو گا۔ اس بیان سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عام آ دمی کے لیے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا منظر نامہ کس طرح کا ہوگا۔ یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ اگر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے کا رجحان اسی طرح ماہ بہ ماہ جاری رہا تو اس کے اثرات خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں پر شدت سے اثر انداز ہوں گے۔ پچھلے کئی ماہ کے دوران توانائی کی قیمتیں تواتر کے ساتھ بڑھائی گئیں ہیں، اسی طرح بجلی، پٹرول اورڈیزل کے نرخ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ پٹرولیم ڈویژن مختلف سطح کے صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں بھی 24 سے 37 فیصد اضافے کی تجویز پیش کرچکی ہے۔ موسم سرما سے قبل اگر حکومت ان اضافوں کی منظوری دے دیتی ہے تو آنے والے مہینوں میں 200 کیوبک میٹر یا اس سے زائد گیس خرچ کرنے والے صارفین کو گیس کے نرخوں میں بھاری اضافوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ڈالر کی قدر میں حالیہ دنوں کے گراں اضافے کا اثر اگر بجلی اور پٹرولیم کے نرخوں پر پڑا تو توانائی کے ان وسائل کے نرخ جو پہلے ہی انتہائی زیادہ ہیں، مزید بلند سطح پر جا پہنچیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں کوئی معتدل راستہ تلاش کرے۔ بظاہر سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں ”مناسب پالیسیوں“ سے یہی مراد لی جاسکتی ہے، مگر ظاہر ہے فیصلوں کا انحصار حکومتی معاشی منیجرز کی قوتِ فیصلہ پر ہے کہ ان معاملات میں وہ کہاں تک عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ اگرچہ پٹرولیم مصنوعات، سیمنٹ اور بجلی کی پیداوار اور طلب کو مضبوط نمو کا عکاس سمجھا جارہا ہے مگر معاشی منظرنامے پر حالیہ دنوں میں اتھل پتھل، خاص طور پر ڈالر کی شرح مبادلہ میں اضافے کے بعد بھی صورت حال اسی طرح برقرار رہتی ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ سٹیٹ بینک نے گوگل کمیونٹی موبلٹی رپورٹس کی بنیاد پر قرار دیا ہے کہ جولائی اور اگست میں اشیائے خور و نوش کی دکانوں، ریستورانوں اور شاپنگ سنٹرز میں سرگرمیاں کووڈ سے پہلے کی سطح سے تجاوز کر گئی تھیں مگر دیکھنا یہ چاہیے کہ مالی سال 2022ء کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں بھی کیا عوامی قوتِ خرچ اس حد تک موجود رہتی ہے۔ بظاہر اس کے امکان کم ہورہے ہیں اور درمیانی اور نچلی آمدنی والے طبقے کے لیے صورت حال روزبروز مشکل ہوتی جارہی ہے۔ عمومی مہنگائی خاص طور پر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو معتدل حد میں برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو توانائی کی قیمتوں میں اضافوں کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بھی یہی طریقہ کار گر ثابت ہوا تھا۔ جون میں مہنگائی 9.7 پر تھی مگر پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس میں کمی سے توانائی کی قیمتوں میں کمی سے جولائی اور اگست میں مہنگائی 8.4 فیصد پر آگئی، مگر حالیہ اضافوں کے بعد رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے ختم ہونے تک مہنگائی کی شرح ماضی کی بلند ترین سطح تک پہنچنے 
کا احتمال ہے۔ توانائی کے اثرات کے علاوہ طلب اور رسد کا فرق بھی قیمتوں کو متاثر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آٹا، جس کے نرخ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر بحرانی صورت حال سے دوچار ہیں اور دس کلو آٹے کا تھیلاما رکیٹ میں چھ سو روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ ”سستے بازاروں“ میں آٹا قدرے دستیاب ہے مگر وہاں خریداروں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور لوگوں کو شناختی کارڈ پر آٹا خریدنا پڑرہا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سال ایسا نہیں جاتا کہ عوام اپنی خوراک کی بنیادی اشیا ہی بہ سہولت اور عزتِ نفس قائم رکھتے ہوئے خرید سکیں۔ رمضان المبارک میں یہی لمبی قطاریں چینی کے خریداروں 
کے لیے لگی تھیں۔ اب آٹے کی باری ہے۔ نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں خوراک کے اس بنیادی آئٹم کے نرخ اور دستیابی کی کیا صورت بنتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مینجمنٹ اور قوتِ فیصلہ کے فقدان کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے شہریوں کی خوراک کی ضروریات اور طلب و رسد کے منظر نامے سے بھی آگاہ نہیں؛ چنانچہ سال میں کئی فوڈ آئٹمز کا بحران پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس کی مالی اور نفسیاتی سزا بھگتتے ہیں۔ حکومت کے مالیاتی ادارے اور معاشی ماہرین مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے اعداد و شمار میں معیشت کی کامیابی دکھاتے ہیں مگر معیشت کا عوامی پہلو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اصولی طور پر معاشی اثرات عوام کو منتقل ہوتے ہوئے اور ان کے معیارِ زندگی میں بہتری کی صورت میں نظر آنا چاہئیں۔ مگر ہمارے ہاں معاشی نمو کا کوئی دعویٰ برسرِ زمین دکھائی نہیں دیتا۔ عام آدمی کے لیے توانائی کی قیمتوں کا بوجھ، شرح مبادلہ کے اثرات اور ٹیکسز جان کا روگ بن چکے ہیں اور ایک زرعی معیشت ہونے کا دعویٰ خوراک کے بحران کے سامنے شرمندہ دکھائی دیتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار چاول، مکئی اور گنے کے زیرِ کاشت رقبے میں اضافہ دکھاتے ہیں مگر قومی ضروریات پوری کرنے کے لیے چینی تک درآمد کرنا پڑتی ہے اور اس صورت حال میں وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ دعویٰ کہ معیشت کو مضبوط بنانا ان کا پہلا مقصد ہے اور دوسرا یہ کہ غریبوں کے لیے کچھ کیا جائے۔ وزیرخزانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کارکردگی سے ناقدین کا منہ بند کریں گے۔ مگر کب؟ مگر کیسے؟یا د رکھنے کی با ت یہ ہے کہ مہنگا ئی کا تعلق سیدھا سیدھا غذ ائیت کی کمی سے ہے۔ غذائی قلت ہمارے ملک میں خصو صاً بچوں اور خواتین کا پیچیدہ مسئلہ اور بے شمار مسائل کی بنیاد ہے۔غذائیت کی کمی کا شکار بچے ذہنی نشوونما میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے بھی ہما رے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ 2018ء کے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے  ہر 10 میں سے 4 بچے اپنی عمر کے مطابق بڑھوتری سے محروم ہیں، ہر تین میں سے ایک بچہ وزن کی کمی کا شکارہے۔کم و بیش یہی حا ل ہما ری خوا تین کا ہے۔ غذائیت کی کمی اور نا قص غذا کی فراہمی جہاں کچھ خواتین میں وز ن کی کمی کا با عث بنتی ہیں، وہیں دیگر خو اتین کے وزن میں خطر نا ک حد تک اضا فے کا با عث بنتی ہیں۔