سودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ، اسٹیٹ بینک سپریم کورٹ پہنچ گیا 

سودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ، اسٹیٹ بینک سپریم کورٹ پہنچ گیا 
سورس: File

اسلام آباد: اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق شرعی عدالت کے فیصلے میں ترامیم کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ۔ دائر کردہ اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پورے ملک کا مکمل معاشی نظام اسلامی اصولوں کے تحت ڈھالنے کیلئے پانچ سال کا وقت قلیل ہے، بیس سال چاہئیں،شریعت کورٹ کا اختیار محدود ہے۔

اسٹیٹ بنک کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مد نظر نہیں رکھا ۔ شرعی عدالت نے سیونگ سرٹیفکیٹس سے متعلق رولز کو خلاف اسلام قرار دیا۔  اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بنک کو شرعی عدالت کے فیصلے میں وضاحت درکار ہے۔

اسٹیٹ بنک آف پاکستان مالیاتی ریگولیٹر ہونے کے ناطے رباکیخلاف اسلامی قوانین پر عمل در آمد کرانے میں مکمل طور پر پر عزم ہے۔ملک میں روایتی بینکنگ اور اسلامی بینکنگ کو یکساں طور پر اجازت ہے۔پورے ملک میں اس وقت انیس اشاریہ چار فیصد اسلامک بینکنگ نظام موجود ہے۔پورے ملک کے بینکنگ نظام میں اسلامک بینکنگ کا بیس فیصد حصہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق ملک میں بائیس اسلامک بنکنگ انسٹی ٹیوشنز ،پانچ مکمل اسلامک بنک،سترہ روایتی بنک جن کی اسلامی شاخیں موجود ہیں ۔ پورے ملک کے بنکوں میں چودہ سو اٹھارہ اسلامک بینکنگ ونڈوز ہیں۔ اسٹیٹ بنک اپنے طور پر شرعی اصولوں کے مطابق قانونی و ضابطوں کے تحت انفراسٹکچر قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھارہا ہے۔

اسٹیٹ بنک دنیا کے ان چند مالیاتی ریگولیٹری بنکو ں میں شامل ہے جو شرعی اصولوں کے مطابق اسلامک بینکنگ کیلئے کوشاں ہے۔شریعت کورٹ نے فیصلے میں کہا بین الااقوامی مالیاتی اداروں اور غیر ملکی قرضوں کی وصولی میں شرعی اصولوں کو سامنے رکھا جائے۔ بین الااقوامی اداروں کیساتھ مالی معاملات بات چیت کےذریعے حل کیے جاتے ہیں،ایسے قوانین موجود نہیں جن کی بدولت بین الااقوامی مالی معاملات کو دیکھا جائے ۔

وفاقی شرعی عدالت عمومی نوعیت کی ہدایات جاری نہیں کرسکتا موجودہ بنکنگ نظام کو مکمل طو رپر تبدیل کرنے کیلئے بیس سال کا وقت درکار ہے۔حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بنک سود سے پاک معاشی نظام کیلئے کوشاں ہے۔قوانین بنانے کے حوالے سے شریعت کورٹ کے ہدایات دینے بارے اختیارات محدود ہیں ۔شرعی عدالت کے فیصلے میں تبدیلی کی جائے۔ 

مصنف کے بارے میں