امریکی صدر کا ایک "پچھڑا"ہوا بیان… !

امریکی صدر کا ایک

ہمارے ہاں پنجابی پوٹھوہاری میں ایک لفظ "پچھڑا" ا ستعمال کرتے ہیں جس کا عام فہم زبان میں مطلب ہے پیچھے رہ جانے والا، اپنے ساتھیوں اور ہمسفروں سے کٹ کر رہ جانے والا، کسی محفل یا مجلس میں دیر سے پہنچے والا وغیرہ۔ ایسے شخص جسے "پچھڑا" ہوا کہتے ہیں کے بارے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہے یا بولے گا یا کرے گا اُس سے اُس کی مایوسی یا فرسٹریشن کا اظہار سامنے آتا ہے جو اُس پر دیرسے پہنچنے یا پیچھے رہ جانے کی وجہ سے طاری ہوئی ہوتی ہے۔ "پچھڑا" کا لفظ یا کسی " پچھڑے " شخص کا خیا ل مجھے امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستان کے بارے میں چند دن قبل دیئے گئے ایک بیان کے حوالے سے آیا ہے۔ امریکی صدر کا ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی میں پاکستان کے بارے میں دیا گیا یہ بیان یقیناایک" پچھڑے " ہوئے شخص کا "پچھڑا" ہوا بیان سمجھا جا سکتا ہے۔ جناب کا فرمان تھا کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین جوہری ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں کوئی باضابطگی اور ہم آہنگی نہیں۔ روس میں کیا ہو رہا ہے؟ اور دنیا کے خطرناک ترین جوہری ممالک میں سے ایک پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور امریکہ کس طرح اس سب کو دیکھتا ہے اور ہینڈل کرتا ہے یہ اہم ہے۔ بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اس میں امریکہ کے لیے بھی مواقع ہیں کہ وہ صورتحال کو تبدیل کر سکے۔ 
امریکی صدر عزت مآب جوبائیڈن کے اس " پچھڑے " ہوئے بیان اور ان کی" پچھڑی" ہوئی شخصیت پر بات آگے بڑھانے سے قبل یہ ذکر کرنا کچھ ایسا بے جا نہیں ہوگا کہ آنجناب عمر کے اس حصے میں ہیں جسے ہمارے ہاں "سترا بہترا" کہہ کر بھی پُکارتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ فلاں کی عمر ستر بہتر برسوں سے زائد ہے اور وہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں اس کے ہواس اور اعضاء اس طرح کام نہیں کرتے یا قائم نہیں رہتے جیسے ساٹھ پینسٹھ برس سے کم عمر افراد کے ہاں ہوتا ہے۔ جناب جوبائیڈن کا پاکستان کے بارے میں خطرنا ک جوہری ملک ہونے کا بیان اس کے" پچھڑے " ہونے کی جہاں دلالت کرتا ہے تو میرے نزدیک اس سے اُن کے کچھ نہ کچھ" سترے بہترے" ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ اگلے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک ویڈیو سے اس کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدرِ امریکہ جناب جوبائیڈین اپنی اہلیہ امریکی خاتونِ اول کے ساتھ گاڑی سے اُتر رہے ہیں ۔ وہ اپنی جیکٹ یا کوٹ جس کو انھوں نے اُتار رکھا ہے اُسکو پہننا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا دایاں بازو تو کوٹ کے اندر کر لیتے ہیں لیکن بایاں بازو کوٹ کے اندر کرنا ان کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ بازو کوٹ کے اندر کرنے کی کوشش میں وہ اپنے بائیں ہاتھ کو کوٹ کی اندر کی جیب میں پھنسا لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی اہلیہ امریکی خاتونِ اول ان کی مدد کرتی ہے 
اور وہ کوٹ پہننے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ 
امریکی صدر کے بارے میں یہ ویڈیو بہت سے لوگوں نے دیکھی ہو گی اور وہ اس سے محظوظ بھی ہوئے ہونگے ۔لیکن کیا امریکی صدر کے پاکستان کے بارے میں دیئے گئے بیان جسے میں نے " پچھڑے " ہوئے بیان کا ٹائٹل دیا ہے سے کیا اسی طرح کی محظوظ ہونے کی کیفیت سامنے آتی ہے یا آئی ہوگی ؟ اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ رائے زنی نہیں کی جا سکتی لیکن اس بیان پر جو ردِ عمل سامنے آیا ہے اس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعی یہ ایک" پچھڑے " اور" سترے بہترے" شخص کا بیان ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر اس بیان کو جس طرح رد کیا گیا ہے اور عوامی سطح پر اس کے بارے میں جس ناپسندیدگی کا اظہارسامنے آیا ہے اور پھر امریکی حکومت کے ترجمانوں نے درجہ بدرجہ اس کی جو وضاحتیں کی ہیں اور اسے زیادہ اہمیت دینے سے احتراز کیا ہے، اس سے واضح طور پر یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ امریکہ ایک عالمی طاقت ضرور ہے اور اس کا صدر خواہ کوئی بھی ہو وہ بے پناہ اختیارات اور طاقت کا مالک ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو کچھ وہ ارشاد فرمائے یا جو بھی لب کشائی کرے وہ درست ہو اور وہ اس سے کسی طرح کے منفی پراپیگنڈے یا مذموم مقاصد کا اظہار سامنے نہ آتا ہو۔ 
پاک امریکی تعلقات کی کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ کہنا کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا کہ امریکی عہدیداروں کو پاکستان کے بارے میں "گاجر اور چھڑی" (Carriott and Stick)کی پالیسی کا ہی شوق نہیں ہے بلکہ انھیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کی ایٹمی صلاحیت میں کیڑے نکالنا اور اسے ہدف تنقید بنانا بھی بہت مرغوب ہے اس کی وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ اور اس کے حاشیہ بردار مغربی ممالک کی بے پناہ مخالفتوں ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیت کا لوہا ہی نہیں منوایا بلکہ مختلف النوع ایٹمی ہتھیار بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ تفصیل میں نہیں جاتے اور نہ اس کی گنجائش ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت نے مئی 1974میں پوکھران راجستھان میں ایٹمی تجربہ یا دھماکہ کیا تو پاکستان اس کوشش میں لگ گیا کہ وہ ہر صورت بھارت کے مقابلے میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرے گا، اس وقت سے لے کر اب تک اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی طرف سے کوئی بھی ایسا وقت نہیں گزرا سوائے 1980سے 1987کے سال کے دوران جب پاکستان اور امریکہ افغانستان میں روسی جارحیت کے مقابلے میں باہم ایک موقف اپنائے ہوئے تھے ورنہ امریکی اس عرصے میں پاکستان کے خلاف اقتصادی اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کے تازیانے ہی نہیں برساتے رہے بلکہ پاکستان کواپنی الٹی سیدھی تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خارجہ) کی اس دور کی جو دستاویزات Declassified ہوئی ہیں یعنی خفیہ نہیں رہی ہیں اُن سے پاکستان کے خلاف اس طرح کے امریکی اقدامات کی ہوشربا تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ 
خیر صورتحال کا یہ ایک پہلو ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کا تعلق پاکستان کے رویے، مؤقف اور ردِ عمل سے جُڑتا ہے وہ یہ کہ پاکستان نے امریکا اور اس کے حلیفوں بالخصوص بھارت کے ہر طرح کے دباؤ اور منفی پراپیگنڈے کا ہمت ، حوصلے اور دل جمعی سے مقابلہ اور سامنا ہی نہیں کیا بلکہ پورے عزم اورمستقل مزاجی کے ساتھ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی منزل کو پانے کی راہ بھی اختیار کئے رکھی ۔ اب ظاہر ہے کہ صورتحال کے اس سیاق و سباق میں امریکہ نے پاکستان کی مخالفت اور اسے ہدفِ تنقید بنانے کا راستہ ہی اختیار کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں اور ترجمانوں کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں منفی پراپیگنڈا اور ہرزہ سرائی سامنے آتی رہتی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور جوہری ہتھیاروں کے بارے میں دیئے گئے اس بیان کو امریکی ہرزہ سرائی کا ایک روپ اور ایک "پچھڑے" ہوئے شخص کا بیان ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرا یہ کالم بھی ایک "پچھڑا " ہوا کالم سمجھا جا سکتاہے کہ یہ کئی دن کی تاخیر سے لکھا گیا ہے اور چھپ رہا ہے۔