صدر عارف علوی کی صدارتی نظام کی مخالفت ، آرمی چیف کی قبل از وقت تعیناتی کی حمایت

صدر عارف علوی کی صدارتی نظام کی مخالفت ، آرمی چیف کی قبل از وقت تعیناتی کی حمایت
سورس: File

اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھانے اور مشاورتی عمل کے ذریعے پاکستان کو درپیش مالیاتی و معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ریاست اور آئین کے تمام ستونوں کو آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو ایوان صدر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال سے معاشرے میں پولرائزیشن پھیلتی ہے جو کہ ہر کسی کے مفاد کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے تمام متعلقہ فریقوں کو ملک کے آئین اور متعلقہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے مشاورتی عمل کے ذریعے سیاسی و معاشی استحکام لانے کیلئے بامعنی اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست اور آئین کے تمام ستونوں کو آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، چاہے جب بھی یہ انتخابات ہوں، حکومت سازی کیلئے راہ ہموار کرنی چاہئے جو کہ پاکستانی عوام کی خواہشات اور امنگوں کی حقیقی عکاس ہو، صرف وہی حکومت جو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے گی وہ ملک میں ضروری سیاسی، مالی و معاشی استحکام لا سکتی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ان کی موجودہ حکومت کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے اور وزیراعظم کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ انہیں موجودہ حکومت کی جانب سے 74 سمریاں موصول ہوئیں جن میں سے 69 سمریوں پر بلاتاخیر دستخط کئے گئے، جونہی بجٹ موصول ہوا اس پر فوری طور دستخط کر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے عہدے سے متعلق فرائض کی ادائیگی کے حوالہ سے پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بلاخوف و خطر درست فیصلے کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اگر کسی شراکت دار نے انہیں سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورتی عمل میں سہولت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کہا تو وہ اس کیلئے تیار ہیں۔ آرمی چیف کی جلد تعیناتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی تعیناتی متعلقہ قوانین اور مروجہ طریقہ کار کے ذریعے شروع کی جاتی ہے اور متعلقہ اداروں اور افسران کی جانب سے اس کی باضابطہ منظوری ہوتی ہے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا کردار آرٹیکلز 8 (3) (a)، آرٹیکل 39، آرٹیکل 243 سے 245 اور آئین کے فورتھ شیڈول کے اندراج نمبر 1& 2 کے تحت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 6 سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ آئین، مخصوص قوانین، طریقہ کار اور ضمیر کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اس لئے وہ ایسی صورتحال پیدا ہونے پر اپنا مؤقف واضح کریں گے۔

صدر مملکت نے ملک کی دنیا بھر میں امن یقینی بنانے، مساوات اور عزت و احترام پر مبنی تمام ممالک کے ساتھ باہمی مفاد کے حصول اور اچھے دوستانہ تعلقات کے قیام کیلئے غیر متنازعہ خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی پالیسیاں صرف ایک بلاک سے مکمل طور پر جڑی ہوئی تھیں جو کہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں تھا۔

صدارتی نظام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کا تجربہ ہو چکا ہے اور یہ ملک کیلئے طویل عرصہ سے بہترین نظام ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 58 ٹو بی جیسی شقوں کے ذریعے صدر کو اضافی اختیارات دینا ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں تھا۔

مصنف کے بارے میں