پی ایچ اے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

پی ایچ اے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

 موسم بہار کی آمد اپنے ساتھ پھولوں، رنگوں، خوشبوؤں اور تازگی کی خبر لاتی ہے۔ جب بھی کسی باغ، پارک یا کھلی جگہ پر جائیں درختوں اور پودوں پر اگ رہے نئے پتے اور پھول طبیعت میں ایک خوشگوار احساس بھر دیتے ہیں۔ لاہور کبھی باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اب بھی اس کے پارک اور گرین بیلٹس بہت اچھے ہیں لیکن تھوڑی سے کوشش اور توجہ سے انہیں مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ 
 پارکس اینڈ پارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے قیام کے بعد تو پارکوں اور گرین بیلٹس پر خصوصی توجہ دیے جانے کی امید تھی لیکن افسوس اس کے قیام کے ابتدائی چند سالوں کے بعد ایسا بہت کچھ نہ ہو سکا۔ اب تو یہ محکمہ خاصی زبوں حالی کا شکار ہے۔عالم یہ ہے کہ پارکوں میں ہونے والے بنیادی کام بھی سالہا سال سے التوا کا شکار ہیں۔ یہاں اقتصادی مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ پارکوں اور گرین بیلٹوں کی بہتری کے لیے کام ہونا تو درکنار یہاں روٹین کے معاملات کی دیکھ بھال بھی نظر انداز ہو رہی ہے۔
 ملازمین کا یہ حال ہے کہ ملک کے قانون کے مطابق جو ملازم کسی ڈیوٹی پر تین ماہ سے زائد تعینات رہے گا وہ آٹو میٹک طریقے سے ریگولر تصور ہو گا، مگر یہاں لوگ کئی کئی سال سے کنٹریکٹ تک حاصل نہیں کر سکے اور ڈیلی ویجز پر کام کر نے پر مجبور ہیں۔23 مارچ کے موقع پر ڈیوٹی پر موجود پی ایچ اے کے ایک ڈیلی ویج ملازم سے پوچھا کہ اگر چھٹی والے دن ڈیوٹی کر رہے تو قانون کے مطابق تو آج کے دن کی ڈبل ویج تو ملے گی؟ میری بات سب کر اس بے بس کارکن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہنے گا کہ ڈبل کی تو بات ہی چھوڑیں یہاں تو سرکاری چھٹی والے دن ہمیں ڈیوٹی تو کرنی پڑتی ہے لیکن اس کی ویجز ادا نہیں ہوتیں۔ گھر آ کر بہت دیر سوچتا رہا یہ کوئی سرکاری ادارہ ہے یا بیگار کیمپ جہاں لوگوں کو مراعات ملنا تو درکنار یہاں تو بنیادی حقوق تک میسر نہیں۔
شرم کی بات ہے کہ جس ملک میں وزرا، بیوروکریسی اور دیگر اعلیٰ افسران تو مراعات اور پرٹوکول کے نام پر ہر ماہ لاکھوں روپئے اجاڑ رہے ہوں وہاں کے سرکاری محکموں میں آج بھی لوگ ڈیلی ویجز پر ملازم ہوں۔ انتہائی کم تنخواہ کے علاوہ انہیں ان مراعات، جو عام سرکاری ملازمین کو حاصل ہوتی ہیں، میں سے بھی کچھ  بھی حاصل نہ ہو، حتیٰ کہ یہ لوگ ہفتہ وار چھٹی بھی کریں تو اس دن کے بھی پیسے کٹ جا یں۔ 
پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) لگنے میں بھی جانے کیا کشش ہے کہ جب بھی بھی کوئی سیاسی ہلچل ہو سب سے پہلے پی ایچ اے کا ڈائریکٹر جنرل تبدیل ہوتا ہے اورایک نیا ڈائریکٹر جنرل آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ڈھنگ سے کوئی معاملہ دیکھا جاتا ہے، نہ کوئی مستقل پالیسی بنائی جاتی ہے اور معاملات پر ہموار طریقے سے عملدرآمد تو خیر بڑی دور کی بات ہے۔ 
پی ایچ اے میں تعینات ہونے والا ہر نیا ڈائریکٹر جنرل ابھی یہاں کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا ہے کہ اس کی ٹرانسفر کے آرڈر آ جاتے ہیں۔ اگر اس سیٹ پر ان کا قیام کچھ عرصہ ہو بھی تو عموماً افسران کی ترجیح بڑے پارک اور مین روڈز کی گرین بیلٹس ہی ہوتی ہیں یہی وجہ کہ ان کے معاملات قدرے بہتر ہیں لیکن شہر کے اکثر چھوٹے پارکوں اور گرین بیلٹس کی حالت بہت بری ہے۔
 میرے اپنے گھر کے سامنے سڑک کی درمیان ایک گرین بیلٹ موجود ہے جو بظاہر تو خاصی اہم معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ اس سڑک کی گرین بیلٹ کی بات ہے جو وحدت روڈ سے بابوصابو موٹر وے تک جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس گرین بیلٹ کی حالت اس قدر بری ہو چکی ہے کہ اگر مجھ جیسے کچھ رہائشی ذاتی توجہ اور خرچہ نہ کریں اور معاملات پی ایچ اے پر ہی چھوڑ دیں تو بس پھر اللہ ہی حافظ ہے۔گرین بیلٹ کے کنارے لگے جنگلے تو سالہا سال پہلے ہی لوگ اکھاڑ کر لے گئے تھے اب تو خیر یہاں لگی اینٹوں کا بھی کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ یہاں پر تعینات مالیوں کا یہ حال یہ کہ کئی کئی ہفتے ان کا کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ عالم تو یہ ہے کہ ملحقہ آبادی سبزاہ زار کے علاقہ میں ابھی تک کچھ لوگوں نے بھینسیں پال رکھی ہیں اور وہ انہیں چرانے کے لیے مزکورہ گرین بیلٹ میں لے آتے ہیں۔ 
ویسے تو ملک کے کسی بھی سرکاری محکمہ کی حالت کچھ اچھی نہیں، لیکن لگتا ہے پی ایچ اے کے معاملات کچھ زیادہ ہی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پرویز الٰہی، شہباز شریف، عثمان بزدار یا وزارت اعلیٰ کے نام پر یہاں حکمرانی کرنے والا کوئی بھی اور شخص ہو میں نے ذاتی طور پر اس محکمہ کی بدحالی کا معاملہ ان کے گوش گزار کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ کچھ زیادہ نہیں تو کم ازکم ان تین ہزار سے زائد ڈیلی ویج ملازمین کو تو ریگولر کر دیں لیکن بے سود۔ 
 پنجاب کے موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کی روشن خیالی اور ان کے ویژن کی باتیں تو بہت سنی ہیں۔ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ اس وقت ان  کے اختیار میں بہت کچھ نہیں،لیکن پھر بھی میری ان کو یہ تجویز ہوگی کہ سرسبزاور آلودگی سے پاک پنجاب کے نعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے پارکوں اور گرین بیلٹس کی بہتر دیکھ بھال کے لیے پی ایچ اے ملازمین کے علاوہ علاقہ مکینوں پر مشتمل کمیٹیاں بھی بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شجر کاری اور پودوں کی دیکھ بھال کے عمل میں شامل کیا جاسکے۔اس کے علاوہ شہر کی گرین بیلٹس اور چھوٹے پارکوں کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی فنڈز جاری کر یں اور کسی نہ کسی طور پی ایچ اے کے تین ہزار سے زائد ڈیلی ویج ملازمین کو ریگولر کردیں۔ ایک نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے اگر اتنا کام بھی ہو گیا تو وہ یقینا یادگار ہو گا۔