حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے عرس کا آغاز، عقیدت مندوں کی آمد کا سلسلہ جاری  

The Urs of Hazrat Ali Hajveri begins, the procession of devotees continues
کیپشن: فائل فوٹو

لاہور: برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے سالانہ عرس کی تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔ عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہیں گی۔ ضلعی انتظامیہ نے اس موقع پر فل پروف سیکیورٹی کا انتظام کیا ہے۔ داتا دربار کے اطراف راستوں پر کنٹینر زلگا دیئے گئے ہیں جبکہ بغیر ویکسینیشن والے افراد کو تقریبات میں شامل نہیں ہونے دیا جائیگا۔

حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے عرس کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز مزار پر رسم چادر پوشی سے کیا گیا۔ رسم چادر پوشی کے بعد محفل حسن قرأت کا انعقاد کیا گیا، تقریب کے دوسرے روز بعد نماز عشا عالمی محفل نعت کا انعقاد کیا جائے گا جس میں زائرین اور عقیدت مندں کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔

دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے حضرت داتا علی ہجویریؒ کے 978ویں عرس کی تقریبات کے موقع پر مربوط سکیورٹی پلان مرتب کر لیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کیپٹن (ر) سہیل چودھری نے کہا ہے کہ عرس کے موقع پر ملک بھر سے آنے والے زائرین کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ متعلقہ پولیس افسران منتظمین دربار کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور تمام تر سکیورٹی انتظامات کا خود جائزہ لے رہے ہیں۔ منتظمین دربار کورونا وبا کے خطرات کے پیش نظر زائرین کو ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ کی ایس او پیز پر عملدرآمد کی تاکید کریں۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے سکیورٹی پلان کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات پر اڑھائی ہزار سے زائد پولیس افسران اور جوان سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیں گے۔ زائرین کو تین درجاتی چیکنگ میکانزم سے مکمل تلاشی کے بعد ہی احاطہ مزار میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ چیکنگ کیلئے واک تھرو گیٹس ،میٹل ڈیٹیکٹرز اور الیکٹرک بیئریرز کا استعمال یقینی بنایا جائے۔

اس کے علاوہ مزار داتا دربار اور گردونواح کی بلند عمارتوں پر سنائپرز تعینات رہیں گے جو کسی بھی قسم کی مشتبہ سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں گے۔ دربار کی ملحقہ گلیاں مکمل طور پر سیل ہونگی، خار دار تاریں اور رکاوٹیں لگائی جائیں گی۔

حضرت علی ہجویریؒ کا شمار عظیم المرتبت اولیائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش پانچویں صدی کی شروعات میں ہوئی۔ آپؒ کا شجرہ نسب حضرت سیّدنا امام حسن بن حضرت علیؓ سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان افغانستان کے شہر غزنی میں آباد تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے بزرگوں سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ اسلامی علم سے روشناس ہونے آذربائیجان، فرغانہ، خراسان اور مرو میں تشریف لے گئے، جہاں آپ نے چوٹی کے مشائخ کرام سے علمی اِستفادہ حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں شیخ ابو سعید ابوالخیر، احمد بن محمد القصاب، ابوالعباس، عبدالکریم بن ہوازن اور حضرت ابوالقاسم جیسی نامور ہستیاں شامل ہیں۔

آپ قطبِ وقت حضرت ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی الحنبلیؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور ان کی ہدایت پا کر ہندوستان چلے آئے، یہاں آپ نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ کے ہاتھوں اس سرزمین کے ہزاروں جاہل عالم بنے، آپ نے لاکھوں کافروں کو توحید سے روشناس کراتے ہوئے مسلمان کیا۔

کہتے ہیں کہ اس خطے میں آپ نے جس شخص کو مسلمان بنا کر حلقہ بگوش اسلام کیا وہ صوبہ پنجاب کا نائب حاکم رائے راجو تھا جو بعد میں شیخ ہندیؒ کے نام سے مشہور ہوا۔ مخلوق خدا کو اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے فیض یاب کرکے آپ نے ۴۶۵ھ بمطابق ۱۰۷۳ء کو اپنی جان مبارک ۶۵ سال کی عمر میں جانِ آفرین کے سپرد فرمائی اور اپنی مسجد اور دَرسگاہ کے قریب دفن ہوئے۔