روس یوکرین جنگ اور پاکستان

روس یوکرین جنگ اور پاکستان

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ وزیراعظم عمران خان روس کے دورے کا بہت شور تھا اور واپسی اتنی خاموشی سے ہو گئی اور پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ اس دورے کے مقاصد کیا تھے اور ان حالات میں جب پوری دنیا روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کر رہی ہے ہمارے وزیراعظم پوٹن کے ساتھ تصویر بنا رہے ہیں۔ اگر محض اس لیے یہ دورہ کیا گیا کہ اس کی تاریخ کا پہلے سے اعلان ہو چکا تھا تو اس جواز میں کوئی وزن نہیں ہے۔ حالات بہتر ہونے تک اس دورے کو ملتوی کیا جا سکتا تھا۔ کہاوت ہے کہ نانی نے خصم کیا، برا کیا۔ کر کے چھوڑ دیا اس سے بھی برا کیا۔ ان حالات میں اس دورے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ باہمی دلچسپی کے وہ کون سے امور تھے جس پر ولادی میر پوتین عمران خان سے بات کرنا چاہتے تھے کہ ان کا ماسکو میں ہونا ضروری تھا۔ واپسی پر شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں یہ بات کی گئی کہ ہم کسی بلاک کی سیاست نہیں کریں گے۔ حضرت شاہ صاحب سے کوئی پوچھے کہ اگر ایسا ہے تو دورے کو موخر کیوں نہ کیا گیا۔ کوئی ایک مقصد جو اس دورے سے حاصل کیا گیا وہ بتایا جائے۔ امریکہ کئی دنوں سے روس کے یوکرائین پر قبضے کی اطلاع دنیا کو دے رہا تھا۔ اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکال رہا تھا مگر ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے تھے ہماری سیکیورٹی کے ادارے بھی خاموش تھے یا وزیراعظم نے ان کی بات سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ عمران خان خارجہ پالیسی کا یوٹرن اتنی آسانی سے نہیں لے سکتے اور اگر جان بوجھ کر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس سے پاکستان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ 
جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں لیکن یہ تعلقات ختم نہیں ہوئے۔ ایک طرف حکومت نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد دی، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سہولت کاری کی مگر اس کے باوجود کوئی ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت یورپ اور امریکہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس کے باوجود حکومت نے یورپ میں اپنے اتحادی مضبوط کرنے کے لیے کوئی موثر کام نہیں کیا۔ روس سے زیادہ پاکستان کے مفادات یوکرین سے وابستہ تھے۔ ٹینکوں سے لے کر گندم کی خریداری تک پاکستان یوکرین کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ معاملہ شخصی پسند نا پسند کا نہیں ہے بلکہ قومی مفادات کا ہے۔ مجھ سے بہتر ان کو کوئی 
نہیں جانتا کے زعم میں مبتلا رہنے والا وزیراعظم پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کر رہا ہے۔ روس اور پاکستان کے وفود کے درمیان ہونے والے معاہدے بھی کہیں نظر نہیں آئے۔
حکومت کو یہ یاد بھی نہیں تھا کہ ہمارے بچے یوکرین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے موجود ہیں۔ ان حالات میں  جب روس نے بڑے پیمانے پر یوکرین پر یلغار کر دی ہے ہمارے طالبعلم وہاں پھنس گئے ہیں۔ اس دورے سے بہت نقصان ہو چکا ہے اب اس نقصان سے بچنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
روس کی یوکرین پر یلغار کا جواز ٹھیک ہے یا غلط لیکن یہ حقیقت ہے کہ یورپ میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ یورپ ایک عرصہ سے کسی بڑی جنگ کا شکار نہیں ہوا تھا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپ عدم تحفظ کا شکار ہو گیا ہے۔ دوسری طرف روس نے یورپ کو دھمکی  دی ہے کہ اگر کسی نے درمیان میں آنے کی کوشش کی تو اس کے خوفناک نتیجہ کے لیے خود کر تیار رکھے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کے خلاف چند اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور ظاہر ہے روس نے ان سب پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حملہ کیا ہے۔ ایک طرف روس کی فوجیں یوکرین کے شہروں میں پہنچ گئی ہیں اور دوسری طرف روس نے یوکرین کی فوج سے کہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ روس اتنی آسانی سے یوکرین پر قبضہ نہیں کر سکتا اور یوکرین کے فوجی ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے جزیرے میں موجود یوکرین کے فوجیوں نے روس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دی۔ یوکرین کی حکومت نے دارالحکومت کیف سمیت مختلف شہروں میں اپنے شہریوں کو اے کے 47 رائفلیں تقسیم کر دی ہیں اور انہیں کہا ہے کہ وہ روس کی بھرپور مزاحمت کریں۔ یورپ ہر حال میں روس کو یوکرین تک محدود کرے گا ورنہ دوسری ریاستیں بھی اسی خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ روس ایک بڑی گوریلا جنگ میں الجھنے جا رہا ہے اور مغرب اور امریکہ اتنی آسانی سے ایک آزاد ملک پر روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر یوکرین کے قبضے کو یورپ نے قبول کر لیا تو کل کسی کی بھی باری آ سکتی ہے۔
یوکرین کے صدر کی دلیری کو ساری دنیا ستائش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ مزاحیہ اداکارہ سے صدر کے عہدے تک پہنچنے والے شخص نے فوجی وردی پہن کر اپنے ملک کے دفاع کا آغاز کر دیا ہے اور یورپی ممالک سے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی یہ آخری زندہ تصویر دیکھ رہے ہیں۔ یوکرین کے صدر کو  یہ گلہ بھی ہے کہ یورپ کے 27 ممالک محض تماشا دیکھ رہے ہیں اور کوئی بڑھ کر ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ یوکرین یورپی یونین اور نیٹو کا اتحادی بننے کا خواہاں تھا۔ یورپی ممالک روس کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے یوکرین کو استعمال کرنا چاہتے تھے مگر افسوس یوکرین کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا۔ سچ بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا کسی کی جنگ میں نہیں کودتا اور اپنے مفادات کو سب سے پہلے ترجیح دی جاتی ہے۔ یوکرین کے لوگ اور فوج نے اگر روس کا راستہ روکنے کے لیے کوشش کی تو ان حالات میں یورپ اور امریکہ ان کی فوجی اور اقتصادی مدد کے لیے آئیں گے اور اس کا مقصد بھی محض اتنا ہو گا کہ وہ روس کو الجھائے رکھیں۔
کیا یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بنے گی یہ سوال تواتر سے اٹھایا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک تیسری عالمی جنگ ایک مذاق ہے لیکن اس کے خوفناک اثرات کا شائد بہت سے لوگوں کو اندازہ نہیں۔ جنگیں ڈرائنگ روم یا گرم لحاف میں لیٹ کر نہیں لڑی جاتیں اس کی ایک قیمت ہے اور جس قوم پر یہ جنگ مسلط ہوتی ہے اسے وہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔ دنیا بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔ روس کے صدر مختلف ممالک کے سربراہان کو فون کر رہے ہیں۔ ولادیمیر پوٹن نے چین کے صدر، بھارت کے وزیراعظم اور ایران کے صدر کو ٹیلی فون کیے ہیں۔ چین اور ایران نے کھل کر روس کی جارحیت کو جائز قرار دیا ہے اور اس کا ذمہ دار امریکہ اور یورپ کو قرار دیا ہے جس نے نیٹو کو توسیع دینے کی خواہش میں یوکرین کو جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ وینزویلا نے بھی روس کے حملے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر اس جنگ کی وجہ سے دنیا بلاکس میں تقسیم ہوتی ہے تو پاکستان کسی طور بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا اور اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ یورپ اور امریکہ کو چھوڑ کر روس کا ساتھ دیا جاتا ہے تو اس کے خوفناک اثرات کے لیے ابھی سے خود کو تیار کرنا ہو گا۔
سوشل میڈیا صارفین وزیراعظم کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحبہ کبھی امریکہ اور ایران کی صلح کرانے کے مشن پر روانہ ہوتے ہیں اور کبھی سعودی عرب اور ایران کی صلح کرانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اب اس دورے پر روانہ ہوئے تو یہ کہا جانے لگا کہ کہیں وزیراعظم یہ اعلان نہ کر دیں کہ وہ روس اور یوکرین میں تنازع کو ختم کرائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس تنازع کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہیے اور اگر ہم غیر جانبدار ہیں تو بھی اس کا واشگاف الفاظ میں اظہار ہونا ضروری ہے۔ اس موقع پر خاموشی سے ہم یورپ کی منڈی کھو دیں گے اور اس کا براہ راست اثر ہمارے برآمدات پر پڑے گا۔

مصنف کے بارے میں