5 رکنی بینچ ہی مقدمہ سنے گا، انتخابات کی تاریخ کس نے دینی ہے کل فیصلہ دیں گے : چیف جسٹس 

5 رکنی بینچ ہی مقدمہ سنے گا، انتخابات کی تاریخ کس نے دینی ہے کل فیصلہ دیں گے : چیف جسٹس 

اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر لیے گئے از خوڈ نوٹس کیس کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا ہے جس کے بعد 5 رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی ہوئی ہے ۔  آدھے گھنٹے کے وقفے 4 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ کل ہر صورت سماعت مکمل کریں گے۔ سماعت صبح ساڑھے 9 بجے شروع کریں گے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ کے 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔  عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا ۔ آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی ۔ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے۔ کل ہر صورت میں سماعت کو مکمل کریں گے۔ 

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو کہا کہ آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟  ۔ علی ظفر نے کہا کہ  وزیر اعلی پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی ۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

دوران سماعت علی ظفر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلی کے لیے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا۔

علی ظفر نے کہا کہ گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے، عدالتی احکامات پہلے ویب سائٹ پر آتے ہیں پھر پبلک ہوتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی، علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نےاسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنرکوارسال کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔

سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہاہیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے والے ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس مظہر علی نئے بینچ کا حصہ ہیں ۔

خیبر پختونخوا میں صورتحال پنجاب سے مختلف ہے: بیرسٹر علی ظفر
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟ بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوران اپنے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال پنجاب سے مختلف ہے کیونکہ وہاں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے مگر وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ گورنر خیبرپختونخوا کہتے ہیں تاریخ دینے کے لیے 90 روز کی مہلت ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر 90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہوں گے۔

چیف جسٹس عمر بندیال کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے21 دن جواب جمع کروانے کے لیے دیے ہیں جبکہ یہ خالص آئینی سوال ہے اور ’قانونی نکتہ طے کرنا ہے کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا‘۔ عدالت نے اس معاملے میں گورنر خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو پیر کو ہی جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ گورنر خیبر پختونخوا نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے اور الیکشن کمیشن کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشتگردی ہو رہی ہے سو مشاورت کی جائے؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’میری نظر میں گورنر کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں‘۔
 

سماعت کے دوران کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں اور کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ کی تاخیر نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ پنجاب میں 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے۔

سابق سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کے لیے کہا تو گورنر نے جواب دیا انھوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ گورنر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد اسمبلی کے ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مختصراً یہ کہ گورنر نے تاریخ دینے سے انکار کر دیا، الیکشن کمیشن نے خط کا جواب دے دیا ہے اور اب بال آپ کے کورٹ میں ہے ، آپ فیصلہ کریں‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالتی حکم پر ہونے والی الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بےنتیجہ ختم ہوئی جس کے بعد ہی صدرِ پاکستان نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اس کے بعد کیا ہوا ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے اب تک کچھ نہیں ہوا۔ عدالت نے دریافت کیا کہ پی ٹی آئی نے گورنر کے خلاف درخواست دائر کی اس کا کیا فیصلہ ہوا؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس میں بھی کہا گیا ہے گورنر مشاورت کر کے تاریخ کا فیصلہ کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کا خط ہائیکورٹ حکم سے متضاد ہے،ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کو کہا جبکہ صدر نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کے لیے کہا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں اور اگر مشاورت نہیں کرنی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو مجھے سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں جبکہ ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ گورنر سے مشاورت کا فیصلہ ہمارے راستےمیں ہے اور کیا الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دیدے تو یہ توہین عدالت ہو گی؟

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔

جواب میں بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے۔ ’کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس عمل میں الیکشن دس سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ دوسرا فریق بتا دے کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے اور ’جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں‘۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلے آپ، نہیں پہلے آپ چل رہا ہے جس کا نتیجہ تاخیر ہے‘۔
 

اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔

اس پر جسٹس جمال نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے جس کے بعد جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہو گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے۔ انھوں نے دریافت کیا کہ کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟

جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں ہے اور گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ ریمارکس دیے کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

جسٹس جمال نے دریافت کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں ہے۔