ماہرین نے ”لائی فائی “ کا شاندار تجربہ کر کے دنیا کو حیران کر دیا

ہالینڈ: ٹیکنالوجی کی دنیا سے منسلک بین الاقوامی ماہرین نے وائی فائی سے 100 گنا تیز ٹیکنالوجی کا شاندار تجربہ کر لیا۔ لائی فائی کے نام سے ایجاد ہونیوالی اس ٹیکنالوجی سے 40 گیگابٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کا کامیاب تجربہ کیا گیا جو دنیا کے تیز ترین وائی فائی سے بھی 100 گنا تیز رفتار ہے۔

ماہرین نے ”لائی فائی “ کا شاندار تجربہ کر کے دنیا کو حیران کر دیا

ہالینڈ: ٹیکنالوجی کی دنیا سے منسلک بین الاقوامی ماہرین نے وائی فائی سے 100 گنا تیز ٹیکنالوجی کا شاندار تجربہ کر لیا۔ لائی فائی کے نام سے ایجاد ہونیوالی اس ٹیکنالوجی سے 40 گیگابٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کا کامیاب تجربہ کیا گیا جو دنیا کے تیز ترین وائی فائی سے بھی 100 گنا تیز رفتار ہے۔
وائی فائی میں رابطے کیلئے 2.4 گیگا ہرٹز سے 5 گیگا ہرٹز تک کی ریڈیو لہریں استعمال کی جاتی ہیں جو تقریباً ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ’لائی فائی‘ یعنی روشنی پر منحصر وائی فائی رابطوں میں خاص طرح کی روشنی خارج کرنے والی ایل ای ڈیز استعمال ہوتی ہیں جو اگرچہ ڈیٹا منتقل تو کرسکتی ہیں مگر وائی فائی کے مقابلے میں اس منتقلی کی رفتار بہت سست ہوتی ہے۔
جرنل آف لائٹ ویو ٹیکنالوجی اور آئی ٹرپل ای ایکسپلور میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق ہالینڈ کی اینڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں جوآن اوہ اور ان کے ساتھیوں نے نئی قسم کی لائی فائی ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے جو روشنی کے بجائے زیریں سرخ شعاعوں (انفراریڈ ویوز) کی مدد سے رابطہ کرتی ہے جبکہ اس کی رفتار بھی حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔جوآن اوہ اور ان کے رفقائے تحقیق نے تجربات کے دوران انفراریڈ لائی فائی سگنلوں کو 8.2 فٹ کی دوری تک 42.8 گیگابٹس فی سیکنڈ کی غیرمعمولی رفتار سے نشر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ مقصد حاصل کرنے کےلیے خاص طرح کے ’لائٹ انٹینا‘ تیار کیے گئے جو انفراریڈ شعاعوں کی شکل میں وائرلیس سگنلوں کو بڑی تیزی سے نشر اور وصول کرنے کے قابل ہیں۔
فی الحال یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور ماہرین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اسے زیادہ بڑے فاصلوں تک کےلیے کارآمد بنانا ہے کیونکہ فاصلہ زیادہ ہونے پر ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار اچانک بہت کم ہوجاتی ہے۔