ریکارڈ توڑ……

Ali Imran Junior, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

دوستو، ریکارڈتوڑ پر بات شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ چوبیس اکتوبر کوہونے والے پاکستان اور بھارت کے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ کے حوالے سے تحریر ہرگز نہیں۔۔بلکہ آج ہم ریکارڈ توڑ مہنگائی پر بات کریں گے۔۔ مہنگائی ریکارڈ توڑ کیسے ہے؟ سرکاری اعدادوشمار میں اعتراف کیاگیا ہے۔۔پاکستان میں گزشتہ تین سال میں مہنگائی نے 70 سال کے ریکارڈ توڑ دیے، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں د گنا اضافہ ہوگیا، جب کہ گھی، تیل، چینی، آٹا اورمرغی کے گوشت کی قیمت تاریخی سطح پر پہنچ گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق قیمتوں کے حساس اعشاریے (ایس پی آئی) کے مطابق اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک بجلی کے نرخ 57 فیصد اضافے سے 4 روپے 06 پیسے فی یونٹ سے بڑھ کر کم از کم 6 روپے 38 پیسے فی یونٹ کی سطح پر آگئے۔اکتوبر کی پہلی سہ ماہی تک ایل پی جی کے 11.67 کلو گرام سلنڈر کی قیمت 51 فیصد اضافے کے بعد 1536 روپے سے بڑھ کر 2322 روپے کی سطح پر پہنچ گئی اسی طرح پیٹرول کی قیمت میں تین سال کے دوران 49 فیصد تک اضافہ ہوا اور فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 93 روپے 80 پیسے فی لیٹر سے بڑھ کر 138 روپے 73 پیسے  ہوگئی ہے۔کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ خوردنی گھی وتیل کی قیمتوں میں ہوا، گھی کی فی کلو قیمت 108 فیصد اضافے سے 356 روپے تک پہنچ گئی، خوردنی تیل کا 5 لیٹر کا کین 87 اعشاریہ 60 فیصد اضافے کے بعد 1783 روپے کا ہوگیا۔چینی کی قیمت میں 3 سال کے دوران 83 فیصد اضافہ ہوا اور 54 روپے کلو فروخت ہونے والی چینی 100 روپے سے تجاوز کرگئی۔ دال کی قیمت میں 60 سے 76 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ماش کی دال کی قیمت 243 روپے، مونگ کی دال کی قیمت 162 روپے، مسور کی دال 180 روپے فی کلو جب کہ چنے کی دال 23 فیصد اضافے سے 145 روپے فی کلو پر آگئی۔آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 3 سال میں 52 فیصد اضافے سے 1196 روپے پر آگئی، آٹے کی فی کلو قیمت میں 20 روپے کلو تک کا اضافہ ہوا۔سرکاری حساب کے مطابق تین سال میں مرغی کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ہوا اور مرغی کی قیمت اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک 252 روپے کلو کی سطح پر رہی، تاہم بازاروں میں مرغی کا گوشت 400 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق تین سال میں گائے کے گوشت کی قیمت 48 فیصد اضافے سے 560 روپے کلو کی سطح پر آگئی تاہم بازاروں میں گائے کا گوشت 650 روپے کلو فروخت ہورہا ہے، بکرے کے گوشت کی فی کلو قیمت 3 سال میں 43 فیصد اضافہ سے 1133 روپے کلو کی سطح پر آگئی۔تین سال میں کھلا دودھ 32 فیصد اضافے کے بعد 112 روپے لیٹر کی سطح پر آگیا جب کہ کراچی میں  کھلا دودھ 130 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے اور اس میں مزید 30 روپے اضافے کی تیاری کی جارہی ہے۔گزشتہ 3 سال کے دوران چاول کی قیمت میں اوسطا 30 فیصد تک اضافہ ہوا، سادہ ڈبل روٹی 44 فیصد تک مہنگی ہوئی اور چائے کی پتی کا 190 گرام کا پیکٹ 27 فیصد اضافے کے بعد 248 روپے تک پہنچ گیا۔ جب کہ اس عرصے میں مرغی کے انڈے بھی 47 فیصد اضافے سے 170 روپے فی درجن ہوگئے۔
یہ تو تھے وہ سرکاری اعترافات جو کھانے پینے اور روزمرہ استعمال میں ہونے والی چیزوں سے متعلق تھے۔۔اب ذرا تعلیم کا حال بھی سن لیجئے۔۔کورونا وائرس کی وجہ سے اسکول و کالجز پچھلے دو سال کے دوران زیادہ عرصہ بند ہی رہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف فیسیں باقاعدگی سے وصول کی گئیں بلکہ ٹرانسپورٹ تک کی فیس لی گئی۔۔فیسوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا، لیکن ذمہ داران خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔۔اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ دکانداروں نے کاپی اور رجسٹر میں صفحات کی تعداد بھی کم کردی،450 والا کیلکو لیٹر 900روپے تک پہنچ گیا، کاغذ کی قیمت میں 20 فیصد جبکہ ا سٹیشنری کی قیمتوں میں سو فیصد تک اضافہ ہوگیا۔ پینسل، بال پین، کیلکولیٹر اور کتابوں سمیت پڑھائی لکھائی سے وابستہ پر چیز مہنگی ہوگئی۔ طلبا کیلئے پڑھائی سے متعلقہ کتابیں، کاپیاں اورا سٹیشنری خریدنا بھی مشکل ہوگیا۔ کاغذ کی قیمت میں 20 فیصد جبکہ اسٹیشنری کی قیمتوں میں سو فیصد تک اضافہ ہوگیا۔۔ دکاندار کہتے ہیں کاپی کیلئے استعمال ہونے والا پیپر 120 روپے سے 140 روپے کلو ہوگیا۔ ہر کاپی اور رجسٹر میں 4 سے 12صفحات کم کردیئے ہیں۔ طلبا کہتے ہیں کیلکولیٹر جو ساڑھے چار سو روپے میں ملتا تھا اب نو سو روپے میں مل رہا ہے۔ رسید بک کی قیمت بھی 30 روپے سے 70 روپے پرچلی گئی۔ کتابیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ طلبا پڑھنا بھی چاہیں تو کتابیں خریدنے کی سکت نہیں۔
لاہور کے مقابلے میں کراچی میں ٹرانسپورٹ نجی ہاتھوں میں ہے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا توپبلک ٹرانسپورٹ والوں نے کرایوں میں از خود 10سے 15روپے اضافہ کردیا گیا تھا جس کا حکومت کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا۔6سیٹر اور 8سیٹر سی این جی رکشہ 5روپے اضافی کرایہ وصول کررہے ہیں۔شہر میں چلنے والی 8سیٹررکشوں نے بھی عوام سے زائد کرائے بٹورنے شروع کردیے۔کوچز،مزدا والوں (منی بس)نے کرایوں میں 5روپے سے 15روپے ازخود اضافہ کرلیا۔منی بس کا زیادہ فاصلے کا کرایہ  چالیس روپے  روپے وصول کیا جارہا ہے۔بس کا اب ایک اسٹاپ کا کرایہ بھی بیس روپے کر دیا گیا ہے۔۔۔ اس ضمن میں محکمہ ٹرانسپورٹ حکومت سندھ نے کہا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نئے کرایوں کا اطلاق نہیں ہوا ہے۔ٹرانسپورٹرز اپنے طور پر زائد کرائے وصول کررہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ردوبدل نہیں کیا گیاانہوں نے کرایوں میں ازخود اضافہ کرلیا۔سندھ کے وزیرٹرانسپورٹ اویس قادرشاہ کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ نہیں کیا، جو ایسا کرے گا اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔۔ دوسری طرف ملک بھر میں ٹرانسپورٹ مافیا کی من مانیاں عروج پر ہے۔۔ لاہور سے راولپنڈی کا کرایہ 1250 سے بڑھا کر 1350 روپے کر دیا گیا ہے۔ لاہور تا مری کا کرایہ 1600روپے سے بڑھا کر 1700، لاہور سے پشاور کا کرایہ 1500 سے بڑھا کر 1600 روپے کر دیا گیا ہے۔لاہور سے فیصل آباد کا کرایہ 630 روپے سے بڑھا کر 730 روپے کر دیا گیا۔ لاہور سے ملتان کا کرایہ 1150 سے بڑھا کر 1250 روپے کر دیا گیا ہے۔لاہور سے سیالکوٹ کا کرایہ100 روپے اضافے کے بعد600 ہوگیا ہے، جبکہ لاہور سے بہاولپور جانیوالوں کو بھی اب1350 روپے ادا کرنے ہوں گے۔لاہورتا خانیوال کا کرایہ 1000 سے بڑھا کر 1100 اور لاہورسے حیدر آباد کا کرایہ 3400سے بڑھا کر 3600 روپے کر دیا گیا ہے۔ لاہور سے کراچی کا کرایہ 3600 سے بڑھا کر 3800 روپے طے کیا گیا ہے۔پشاور سے دیگرشہروں کیلئے کرایوں میں 20 سے 40 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔پشاور سے نوشہرہ جانے والی گاڑیوں کے کرایوں میں 20 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ پشاور سے مردان تک کرایوں میں 30 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں لوکل ٹرانسپورٹ کے کرائے چالیس روپے تک بڑھا دیئے ہیں۔اسٹاپ ٹو اسٹاپ کرایہ پندرہ سے بڑھا کر بیس روپے کر دیا گیا ہے۔ پیرودھائی سے روات کا کرایہ پچاس سے بڑھا کر نوے روپے کر دیا۔
 اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جتنی منتیں اور دعائیں یہ قوم پاک بھارت میچ کے دوران مانگتی ہے،اپنے ملک کے لئے مانگیں تو حالات ہی بدل جائیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔