آپ سے التجا ہے !

آپ سے التجا ہے !

گھر کے صحن میں نعش پڑی تھی ،نعش کے اردگرد سہمے ہوئے بچے اورایک پریشان حال بیوہ تھی۔یہ سب حسین کو پکا ر رہے تھے مگر حسین ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا تھا۔حسین کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ چودہ سال کی تھی، یہ باشعور اور پڑھی لکھی تھی ، غربت انسان کو ضرورت سے زیادہ اور وقت سے پہلے سنجیدہ بنا دیتی ہے ،امیر گھرانوں کے بچے شعور کی جس سطح پر پچیس سال بعد قدم رکھتے ہیں غریب گھرانوں میں شعور کا یہ سفر بارہ سال کی عمر میں پختہ ہو جاتا ہے۔ عقل و شعور محنت اور تجربات سے حاصل ہوتے ہیں اور غریب گھرانوں میں یہ دونوں اجناس بہت چھوٹی عمر میں دستیاب ہوتی ہیں ۔عائشہ سنجیدہ بھی تھی ، باشعور اور حساس بھی ، یہ والد کی نعش کو گھر کے صحن میں دیکھ کر حواس باختہ ہو گئی تھی ، غم جب تکلیف سے بڑھ کر کرب اور اذیت تک پہنچ جائے تو انسان مجنون اور دیوانہ ہو جاتا ہے ، تکلیف کا تعلق صرف جسم سے ہوتا ہے لیکن جب یہ کرب اور اذیت تک پہنچ جائے تو انسان کی روح بھی چھلنی چھلنی ہو جاتی ہے ۔عائشہ کی آہ و بکا نے وہاں موجود اہل محلہ کی روح کو بھی زخمی کر دیا تھا ، اس نے والد کی پیشانی کو بوسہ دیا اور آنچل سے منہ چھپا کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ حسین کی سب سے چھوٹی بیٹی تین سال کی تھی ، وہ گھر میں ٹوٹ پڑنے والی قیامت سے بے خبر تھی ، وہ سمجھ رہی تھی شاید پاپا سو رہے ہیں ، پہلے بھی جب حسین سوتا تھا تو وہ آ کر پاپا کی گود میںلیٹ جاتی تھی ، وہ آج پھر یہی عمل بار بار دہرا رہی تھی مگر حسین کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا ، وہ صحن کے چکر لگاتی اور باربار پاپا کی گود میں جا کر لیٹ جاتی ،جب کوئی رسپانس نہ ملا تو اس نے حسین کا منہ پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا ، وہ اپنی توتلی زبان میں بار بار بابا، بابا پکار رہی تھی ، اس کی پکار میں اتنا درد تھا کہ ماؤنٹ ایورسٹ بھی اس پکار کو سن لیتا تو درد سے پھٹ جاتا۔ کوئی رسپانس نہ ملا تو وہ صحن میں بیٹھی والدہ کے گود میں چلی گئی، والدہ کی ٹھوڑی پکڑ کر اسے صحن میں پڑی لاش کی طرف متوجہ کرنے لگی گویا شکایت لگوا رہی ہو کہ پاپا مجھ سے بات نہیں کر رہے ۔ فہد، حسین کا اکلوتا بیٹا تھا ، وہ بھی والدہ سے بار 
بار پوچھ رہا تھا ـ’’امی پاپا کو کیا ہوا ہے ، وہ اٹھ کیوں نہیں رہے ، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا میں کل عید کے نئے کپڑے لاؤں گا، انہوں نے اس عید پر سکول کے لیے نیا بیگ لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔‘‘وہ بار بار حسین کی چار پائی کے پاس آتا اور پاپا پکار کر واپس چلاجاتا ، گویا ماں کو شکایت لگوا رہا ہو کہ پاپا جان بوجھ کر نہیں اٹھ رہے ۔فہد کے اس بچپنے اور معصومیت نے وہاں موجود لوگوں کے کلیجے زخمی کر دیے تھے ، وہاں موجود تمام آنکھیں بھیگ چکی تھی مگر درد، کرب اور اذیت ابھی باقی تھی ۔
یہ کسی قتل یا روڈ ایکسیڈنٹ کی لاش نہیں تھی بلکہ یہ سماج کا اجتماعی قتل تھا ، سارے سماج نے مل کر حسین کو قتل کیاتھا ،حسین لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہتا تھا ، تین بچوں کا باپ رکشا چلا کر زندگی کی گاڑی کو ایندھن فراہم کر تا تھا ، ایک غریب کی زندگی کے کیا مسائل ہیں اسے ملک کے حکمران ، سیاستدان ، جاگیر دار، سرمایہ دار اور اپر کلاس کے لوگ کیسے جان سکتے ہیں ۔ جس رکشے والے کی دن بھر کی کل آمدن سات آٹھ سو روپے ہو اس کے گھر کو دنیا کے سارے ریاضیاتی فارمولے بھی مل کر بھی نہیں چلا سکتے ۔حسین کرائے کے مکان میں رہتا تھا ، اس کی کل آمدن بارہ پندرہ ہزار ماہانہ تھی اور اخراجات کی فہرست میں کرایہ مکان، بجلی گیس کے بل، بچوں کی فیسیں، دودھ ، گھی اور راشن شامل تھے ، اس پر مستزاد عید کے دنوں میں بچوں کی معصوم خواہشات تھیں۔ انسان خود تو جیسے تیسے جی لیتا ہے مگر اس سے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا ، اس میں پھول جیسی بیٹیوں کی معصوم فرمائشوں کو ’’ناں‘‘ کہنے کی سکت نہیں ہوتی اور اس سے عید تہوار کے دنوں میں بچوں سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہوتی ہے ۔ حسین بھی یہ سب بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تھا ، وہ عید پرفہد اور فروا کو نئے کپڑوںکا تحفہ نہیں دے سکتا تھا ، وہ فہد کے لیے نئے سکول بیگ کا اہتمام نہیں کر سکتا تھا اور وہ عید پر بچوں کے کھانے اور ان کی معصوم خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتا تھا چناچہ اس نے رات کے آخری پہر فیصلہ کیا ، بچے اور بیوی گہری نیند سو رہے تھے ،وہ چپکے سے اٹھا ، ایک بڑی سی چادرکا پھندا بنایا اور چھت سے لٹکے پنکھے کے ساتھ جھول گیا ۔دن روشن ہو چکا تھا ، حسین کی نعش صحن میں پڑی تھی اور وہ اہل محلہ جو چند گھنٹے قبل اس کی زندگی اور ضروریات سے ناواقف تھے اس کی نعش دیکھ کر سب جاگ اٹھے تھے ۔ 
بدقسمتی سے ویسے تو ہمارے ہاں خودکشی معمول کی بات ہے مگر عید تہوار کے موقع پر اس میں شدت آ جاتی ہے ، پچھلے کچھ دنوں سے اخبارات میں روزانہ خود کشی کی کوئی نہ کوئی خبر چھپتی ہے اور ہم من حیث المجموع اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اسے معمول کی خبرجان کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ انسان اپنی زندگی رو پیٹ کر گزار لیتا ہے مگر اس سے بچوں کی ضروریات اور خواہشات کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا ، وہ کتنا ہی مضبوط اور سنگدل کیوں نہ ہو اولاد کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے ، ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہر روز ایسے بے بس انسانوں کو مرتا دیکھتے ہیں مگر ہم کسی کا ہاتھ تھامنے کے لیے آگے نہیں بڑھتے ،پتا نہیں ہم کیوں نہیں ڈرتے کہ تقدیر کسی روزہمیں بھی بے بسی کے اس موڑ پر لا کر کھڑا کر سکتی ہے ۔ 
رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے ، ہمارے محبوب رسولؐ خدااس مہینے میں خرچ کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، میری آپ سے التجا ہے کہ خدارااپنے محلے، علاقے اور دائیں بائیں دھیان رکھیں ، کسی غریب کی خوشیوں کا سامان بن جائیں ، کسی عائشہ ، فہد اور فروا کے والد کی جان بچا لیں ،کسی بوڑھے والدین کی جاتی ہوئی بینائی کا نور بن جائیں ، کسی یتیم بچے کا سہارا بن جائیں ، کسی بے بس اور مجبور بیوہ کی دعاؤں میں شامل ہو جائیں ، کسی رکشے اورریڑھی والے کے بچوں کی معصوم خواہشات کا بوجھ اٹھا لیں ، کسی غریب اور مزدور کی عید کو عید بنا دیں ، محلے کے کسی بے سہارا گھر کے سہمے اور مایوس بچوں کی آنکھوں کی چمک بن جائیں اورکسی سفید پوش میاں بیوی کا بھرم قائم رکھنے میں ان کے مدد گار بن جائیں ، یقین جانیں ان چند ہزار سے آپ کے مال میں ذرہ بھر کمی نہیں ہو گی بلکہ یہ چند ہزار میدان محشر میں اربوں کھربوں سے زیادہ وزنی ہوں گے۔

مصنف کے بارے میں