ہمت عالی رجال کی ہے

ہمت عالی رجال کی ہے

دلّی کے سفر میں ہم نے مشہور زمانہ انڈیا گیٹ دیکھا اور نہ قطب مینار ہی کی سیر کر سکے۔ دراصل یہ سفر سفرِسیاحت نہیں بلکہ سفرِ زیارت تھا۔ دوستوں کا خیال تھا کہ دلّی کی اورنج ٹرین میں کسی بھی سٹیشن سے آخری سٹیشن تک کا ٹکٹ لے کر بیٹھا جائے، یوں سارے شہر کی ایک طائرانہ سیر ہو جائے گی، لیکن اس کا موقع ہی نہیں ملا— مزاج اور وقت نے اجازت نہ دی۔ زائر کو چاہیے کہ وہ جس ہستی کی زیارت و ملاقات کی غرض سے گھر سے چلا ہے، اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، دائیں بائیں سیر سپاٹے نہ کرتا پھرے، اپنی کیفیت کو یوں سستے داموں برباد نہ کرے۔یوں نہ ہو کہ کوئی کہے، کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا چھ آنے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ جب تم کسی صاحبِ مزار کی زیارت کا قصد کرو تو سیدھے وہیں پہ جاؤ، سلام پیش کرو، دائیں بائیں مت دیکھو، وہاں کسی سے مت الجھو، بس جس کام سے گئے ہو، اسی پر توجہ رکھو۔ اس فقیر کی دانست میں بیرونِ ملک زیارات پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ انسان جس مقصد کے لیے کوئی سفر اختیار کرتا ہے، وہی مقصد اس کے خیال پر چھایا رہتا ہے، اور خمسہ سے لے کر مدرکہ تک اس کے تمام حواس اسی خیال کے تابع رہتے ہیں۔ بس وہ خیال جو کچھ اسے سجھاتا ہے، اس کے حواس وہی کچھ دیکھتے ہیں، وہی کچھ محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم کہیں پر دائیں بائیں ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خیال منتشر ہے، ہمارا مقصد غیر واضح ہے، ہمارا اپنے مقصود کے ساتھ تعلق گویا مبہم ہے۔درحقیقت مقصود جب تک مطلوب نہ بنے، کوئی طالب کیسے کہلائے۔ دراصل تعلق تو صرف طالب اور مطلوب ہی کا معتبر ٹھہرتا ہے، باقی سب تعلق عارضی، عارائتی اور کسی مفاد کی بُنت کے تحت بنے ہوتے ہیں۔ مفاد کے دھاگے الجھتے ہیں تو تعلق بھی الجھ کر رہ جاتا ہے۔ طالب اور مطلوب کا تعلق اس لیے دائمی اور باقی ہے کہ مطلوب کبھی فانی نہیں ہوتا— جب تک مطلوب ہے، تب تک اس کا طالب بھی موجود ہے۔ ہمیشہ کے لیے رہ جانے والے نشانات طالبینِ حق و صداقت کے نشانات ہوتے ہیں۔ پہچان کے سفر پر نکلنے والا کثرت سے نکل کر پہلے ثنویت میں آتا ہے اور پھر ثنویت سے وحدت کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ کثرت کثافت ہے، وحدت لطافت! خوشبو اور خیال وحدت کی دین ہیں۔ کسی واحد ذات سے احدیت کا راستہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔ کثرت سے سمیٹا ہوا علم دوبارہ کثرت ہی میں لے جاتا ہے۔ وہ علم اور ہے جو ”علموں بس کریں اور یار“ کا نعرہ مستانہ لگانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
دلّی کو بائیس خواجہ کی چوکھٹ کہتے ہیں، یہاں سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھنے والے بائیس خواجگان کی درگاہیں ہیں۔ طاہر نظامی صاحب سے ملاقات کے دوران میں ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پاس وقت کی مہلت کم ہے اور دلّی کی پہچان درگاہیں کافی زیادہ ہیں۔ دلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی درگاہ کے بعد معروف ترین درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی ہے، یہ قطب مینار سے کچھ فاصلے پر 
ہے۔ یہاں حاضری کی کیفیت بالکل جدا ہے، یہاں جلال کی ایک واضح لہر محسوس کی جاسکتی ہے۔ خاموشی یہاں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ جذب و مستی پر ادب ہمہ حال فائق رہتا ہے۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزارِ اقدس کے احاطے میں خواتین کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خواتین راہداری میں بنی ہوئی جالیوں میں بیٹھ کر سلام پیش کرتی ہیں۔ ہم سلام پیش کر کے دیوار کے ساتھ اپنا جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئے اور صبح کا بھولا ہوا ذکر سرِ شام جاپنے لگے۔ اچانک نظر پڑی کہ چند خواتین سر پر دوپٹہ لیے تربت کے ارد گرد کھڑی دعا کر رہی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں معلوم ہو گیا کہ یہ مخنث ہیں، انہیں احاطے میں داخل ہونے اجازت ہے۔ اس طرح ہماری یہ حیرت بھی اپنے منطقی جواب کو پہنچی کہ ہم ایسے ناکس و ناقص یہاں حاضری کے لیے کیسے داخل ہو جاتے ہیں۔ ارباِب معانی بتاتے ہیں کہ طالبِ دنیا مونث ہے، طالبِ عقبیٰ مخنث ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر ہے۔ مذکر ہی مذکور ہوا کرتے ہیں۔
دمِ واپسیں ایک کتابوں کی دکان پر آپؒ کا دیوان رکھا ہوا دیکھا۔ اردو ترجمہ فارسی متن کے ساتھ تھا۔ شایانِ شان شائع نہیں ہو سکا، متن کی کتابت اور ترجمے کے معیار میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ زندگی نے مہلت دی اور مالکِ کائنات نے ہمت اور توفیق عطا کی تو دیوانِ قطب الدین بختیار کاکیؒ درست متن اور خوبصورت ترجمے کے ساتھ ایک نئی سج دھج سے شائع کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ اس ضمن میں ”درِ احساس پبلکیشنز“ کے کار پردازان حمیر انور، یوسف واصفی اور ذیشان دانش کو درخواست پیش کر دی گئی ہے۔
یہاں حاضری کے بعد بستی نظام الدینؒ جانے کے لیے ایک رکشہ کرایا۔ رکشہ ڈرائیور ایک مدقوق اور کمزور سا ادھیڑ عمر شخص تھا۔ تعارف سے معلوم ہوا مسلمان بھائی ہے۔ دلّی کی ایک مصروف و معروف شاہراہ سے گزر رہے تھے کہ رفتار اچانک آہستہ ہو گئی اور ڈرائیور نے رکشہ ایک طرف فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ باہر نکل کر دیکھا، ایک ٹائر مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا تھا۔ ہم نے کہا، آپ کے پاس سپئر ٹائر بھی ہوتا ہے، وہ لگا لیں۔ بڑی لجاجت سے بولا، جی وہ بھی پنکچر ہے۔ میں نے کہا، آپ سیٹ پر بیٹھیں، ہم چار لوگ ہیں، آہستہ آہستہ دھکا لگا کر کسی ٹائر شاپ تک لے جاتے ہیں۔ وہ شریف النفس آدمی اس پیش کش پر راضی نہ ہوا۔ ”جیک“ لگا کر اس نے ٹائر کھولا اور پیدل ہی چل پڑا۔ یہ ”جیک“ دراصل ایک موٹا سا بانس تھا، جسے اس نے اپنے رکشے کو ذرا سا ٹیڑھا کرنے کے بعد نیچے لگا لیا تھا۔ بھاری بھرکم رکشہ کو ٹیڑھا کرنا اس کمزور وجود کے بس کی بات نہ تھی، چنانچہ یہ جیک لگانے میں ہم سب نے مل جل کر اس کی مدد کی۔ ٹائر کی حالت دیکھی تو میری سٹی گم ہو گئی، رکشے کے تینوں ٹائر ایک کاغذ کی طرح پتلے ہو چکے تھے، یوں سمجھیے جیسے رکشہ محض ٹیوب پر چل رہا تھا۔ یہ رکشے کے ٹائر مجھے یہاں مسلمانوں کی کسمپرسی کی بپتا سنا رہے تھے۔ اللہ کا بندہ ٹائر لے کر ایسا گیا کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد لوٹا۔ یہ انتظار ہم سب پر نہایت گراں گزرا۔ وہ اللہ کا بندہ جاتے ہوئے کہہ گیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو کسی اور سواری پر چلیں جائیں، لیکن اسے اس طرح مصیبت میں گھرا چھوڑ کر اپنی راہ لینا ہمیں ہماری اپنی ہی نظر میں ایک گری ہوئی حرکت محسوس ہو رہی تھی، چنانچہ اسے کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں، ہم آپ کا انتظار کریں گے۔ ہم اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا رکشہ لیتے تو ہرگز بھلا معلوم نہ ہوتا کہ جن کی درگاہ پر جا رہے تھے، وہاں غریب نوازی کا چلن ہے۔ وہ ہمارے راہبر ہیں، راہبر کیا سوچتے کہ ان کے زائر کسی غریب کو یوں سرِ راہ بے یار و مددگار چھوڑ آئے ہیں۔ خستہ حال ڈرائیور اور اس کے خستہ ٹائروں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ دل میں خیال آیا کہ اس کی مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ دوبارہ سفر کے دوران میں باتوں باتوں میں اس سے پوچھ لیا کہ یہ رکشہ کرایے پر لیا ہے یا اس کا اپنا ہے؟ جب یہ معلوم ہوا کہ رکشہ اس کا ذاتی ملکیت ہے، تو اس کی دل شکنی کیے بغیر پوچھ لیا کہ یہاں ٹائر مہنگے ہوتے ہیں، یا سستے ہیں؟ مثلاً آپ کے رکشے کا ایک ٹائر تقریباً کتنے تک کا ہو گا۔ اس نے بتایا کہ ایک ٹائر بارہ سو روپے میں آ جاتا ہے۔ بس ہمیں یہی جاننے سے مطلب تھا۔ جب درگاہ نظام الدینؒ پہنچے تو اسے اس کے طے شدہ کرایے کے ساتھ تین ٹائروں کے چھتیس سو روپے بھی اس کی نذر کیے، اور کہا کہ یہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرف سے ایک تحفہ سمجھ لو، اور ابھی جا کر نئے ٹائر ڈلواؤ۔ ہم ابھی سلام کرنے جا رہے ہیں، پھر تمہارے ساتھ ہی واپس ہوٹل چلیں گے۔ بوجوہ اس کے ساتھ واپس ہوٹل نہیں گئے۔ یوسف صاحب کا خیال تھا کہ یہ بے چارہ غریب ڈرائیور جس کے ساتھ اتنا وقت گزرا ہے، ہمارے ساتھ ہوٹل تک جاتے ہوئے سکیورٹی والوں کی نظروں میں آ گیا تو اس کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ مشورہ صائب تھا، چنانچہ ہم اس کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی کسی اور رکشے پر واپس ہوٹل چلے آئے۔ اس سے اگلے روز وہاں درگاہ کے باہر ملا، بڑی گرمجوشی سے سلام لیا، ہم نے دیکھا ٹائر بدل چکے تھے اور اس کے چہرے پر ایک تشکر آمیز مسکراہٹ تھی۔ یہی مسکراہٹ حاصلِ زیست ہوا کرتی ہے۔
گزشتہ کالم میں ایک شعر یوں تھا:
یہ چھب، ڈھب، حسنِ خوب و خوشتر
خوبی اُس خوش خصالؐ کی ہے
یہاں خوش خصال کے اوپر درود شریفؐ لکھا تھا۔ دوستوں کو تعجب ہوا کہ منقبت کے اشعار میں ضمیر اپنی صفت کے ساتھ سوئے مدینہ کیسے ہو گئی۔ دراصل اس امر کی وضاحت مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ایک نعتیہ شعر سے ہو جاتی ہے:
تُوؐ مصوری کا کمال ہے، تُو خدا کا حسنِ خیال ہے
جنہیں تیراؐ جلوہ عطا ہوا، وہ ترےؐ جمال میں ڈھل گئے
خوشبو ساری خیال کی ہے— اور یہ خیال جہاں سے عطا ہوتا ہے، وہ بارگاہِ حسنِ خیالؐ ہے۔ خوشبو دراصل خوشبودار کردار کی ہوتی ہے— یہ کردار خوشبودار افعال سے جنم لیتا ہے اور افعال کی امامت ہمارا خیال کرتا ہے۔ خوشبودار خیال ایک جائے لطافت ہے۔ لطافت— کیف و مستی کی جا ہے۔ کیف و مستی میں بے خود ہونا جنوں کا ابتدائیہ ہے۔ مستی کی بستی میں صبح سے شام کرنا اور پھر جائے خرد پر بھی قیام کرنا، ان ہی عالی رجال کا کام ہے۔ منقبت کا ایک شعرگزشتہ کالم میں درج ہونے سے رہ گیا تھا۔ وہ آج کہے دیتے ہیں:
بے خود ہو کر خِرَد میں رہنا
ہمّت عالی رجال کی ہے