کینیڈا کا تعلیمی سسٹم اور ہمارے طلبہ

کینیڈا کا تعلیمی سسٹم اور ہمارے طلبہ

ٹورنٹو کینیڈا میں پاکستان کے قائم مقام قونصل جنرل یاسر اقبال بٹ سے مل کر خوشی ہوئی کہ پاکستان کے بیرون ملک قونصل خانے تارکین وطن پاکستانیوں کی راہنمائی اور مدد کے ساتھ ساتھ وہاں کے حالات اور ضروریات کے مطابق پاکستانیوں اور پاکستان کے لئے حقیقت میں کام کر رہے ہیں، ورنہ بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کے بارے میں تارکین وطن کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے۔کینیڈا کے معروف پاکستانی صحافی اشرف لودھی کے ہمراہ پاکستان کے ٹورنٹو قونصلیٹ جانے کا اتفاق ہوا تو قونصل جنرل یاسر بٹ سے کینیڈا کی یونیورسٹیوں اور کالجز میں پاکستانی طلبہ کی تعداد اور انہیں اس ملک میں راغب کرنے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔لاہور کے ایک سرحدی قصبے سے تعلق رکھنے والے ہمارے قونصل جنرل علم و ادب کے دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی ملکوں میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔میری بیٹیاں یہاں کی واٹر لو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اس لئے یونیورسٹی آف واٹرلو اور کینیڈا کے تعلیمی سسٹم کے بارے میں مجھے بھی کچھ آگاہی حاصل ہے اس لئے یاسر بٹ کے ساتھ کینیڈا کے تعلیمی سسٹم بارے کافی معلومات کا تبادلہ ہوا۔
کسی بھی ملک کی ترقی خوشحالی اور استحکام کیلئے دیگر عوامل کیساتھ معیاری تعلیم اور جدید تحقیق بنیادی عنصر ہے،ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم و تحقیق کو اہمیت بھی دی اور طلباء کو سہولیات اور مراعات کی فراہمی پر بھی توجہ دی،اس مقصد کیلئے بھاری بجٹ بھی مختص کیا گیا،نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک میں آئے روز علم کے نئے پرت کھلتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ کے بعد قصہ پارینہ بن جاتے ہیں اور کوئی نئی تحقیق سامنے آجاتی ہے،ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں تعلیم میں جدت اور تحقیق نہ ہونے سے علم بھی ماضی کی گرد میں دب کر گل سڑ رہا ہے،ان ممالک میں آج بھی علم کے نام پر علم کی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے،صدیوں پہلے ہونے والی تحقیق و جستجو طلبا ء کو پڑھائی جا رہی ہے، افلاطون، ارسطو، سقراط، بقراط،ابن سینا، غزالی، ابوالقاسم، الخزینی، شیرازی،خوارزمی،نیوٹن،آئنسٹائن، گیلیلیو، فیرا ڈے،نکولا ٹیسلا،فرینکلن،گراہم بیل، ایڈیسن، فاسکل،وولٹا نے کیا کہاکیا کیا،آج بھی طلباء کو علم کے نام پر صرف پڑھایا جا رہا ہے، ان کو پرانی تحقیق کے عملی تجربہ کا موقع دیا جاتا ہے نہ نئی تحقیق کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں نتیجے میں پی ایچ ڈی ہولڈر بھی کوئی تحقیقی کام کرنے کے بجائے وہی علم کی تاریخ نئی نسل کو پڑھانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے،کینیڈا میں مگر تعلیم کیساتھ تربیت اور تحقیق کے مواقع دستیاب ہیں،یہی وجہ کہ ترقی یافتہ خوشحال اور مستحکم ممالک میں کینیڈا پورے قد سے کھڑا ہے۔
کینیڈا دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا گہوارہ ہے،یہاں تعلیم کا ایک مضبوط اور اچھی سرکاری مالی اعانت سے چلنے والا نظام ہے، جو بڑے پیمانے پر صوبائی طور پر منظم ہے،نتیجتاًتعلیمی نظام کے کچھ پہلو صوبوں میں مختلف ہو سکتے ہیں تاہم چونکہ تعلیم کی نگرانی وفاقی حکومت کرتی ہے اس لئے پورے ملک میں تعلیم کا معیار مسلسل بلند ہو رہا ہے، سرکاری اور نجی دونوں طرح کا تعلیمی نظام مروج ہے، حکومت کنڈرگارٹن سے لے کر سیکنڈری کے بعد کی سطح تک تعلیم پر بھاری سبسڈی دیتی ہے، اپنی جی ڈی پی کا اوسطاً چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کینیڈا تعلیم پر ترقی یافتہ ممالک میں اوسط سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔بارہ جماعتوں تک تعلیم مفت ہے اور جو کینیڈین طالب علم کالج اور یونیورسٹی میں تعلیمی اخراجات اٹھانے کے قابل نہ ہو اسے حکومت بلا سود یا انتہائی کم شرح سود پر قرضہ دے دیتی ہے جو بعد میں نوکری حاصل کر کے وہ طالب علم ماہانہ معمولی سی قسطوں میں واپس کر سکتا ہے۔یہاں عام طور پر تعلیمی نظام کو تین درجوں میں تقسیم کیاجاتا ہے،اول،پرائمری، دوسرے، ثانوی، تیسرے، پوسٹ سیکنڈری۔
کینیڈا میں بہت سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یونیورسٹی پروگرام ہیں جو ملک بھر میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں فعال ہیں، کینیڈا کی یونیورسٹیوں سے دی گئی ڈگریوں کو دنیا بھر کی دیگر یونیورسٹیوں کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے،بین الاقوامی طلباء کینیڈا کی دو سرکاری زبانوں انگلش یا فرنچ میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں، کچھ ادارے دونوں زبانوں میں تعلیم دے سکتے ہیں، حالانکہ کسی بھی سطح پر سکول جانے کے لئے طلباء کو دونوں زبانوں میں روانی کی ضرورت نہیں،بیشتر شہرو ں اور ریاستوں میں سکول کی سطح کی تعلیم کی بنیادی زبان انگریزی ہے،تاہم، فرانسیسی زبان کی تعلیم پورے ملک میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہے،کینیڈا میں طالب علموں کے باقاعدہ حقوق ہیں جن کی نگہبانی سول سوسائٹی کیساتھ وفاقی اور ریاستی حکومتیں کرتی ہیں اگر کسی سے کوئی زیادتی ہو رہی ہو تو عدالت ترجیحی بنیاد پر اس کو انصاف فراہم کرتی ہے،کینیڈین طالب علموں کی کفالت تو حکومت کرتی ہے مگر غیر ملکی طلباء کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے ہفتہ میں 20گھنٹے ملازمت کی اجازت ہے اور طلبا کو محنت کی ترغیب دینے کیلئے انہیں اچھا خاصہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
طلباء میں محنت کا جذبہ،عملی تجربہ،مہارت کو نکھارنے کیلئے سٹوڈنٹس ورک پلیسمنٹ پروگرام یا کوآپ پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت آجرطلباء کے علم اور طلباء آجر کے تجربہ سے استفادہ کر سکتے ہیں،اس کیساتھ ان کی کفالت بھی ہوتی رہتی ہے، تجربہ سے آگہی کیلئے طلباء کی خدمات حاصل کرنے کے لئے فنڈنگ کے متعدد مواقع دستیاب ہیں،اس فنڈنگ کا انتظام ایمپلائمنٹ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کینیڈا کر رہا ہے۔
اگر چہ یہ پروگرام صرف کینیڈا کی شہریت والے طلباء، مستقل رہائشیوں، یا کینیڈا میں کام کرنے کا حق رکھنے والے پناہ گزینوں کے لیے کھلا ہے،لیکن بینالاقوامی طلباء کیلئے بھی بہت سی مرعات ہیں،ان کو مراعات بھی دی جاتیں ہیں،تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت بھی فراہم کی جاتی ہے اور شہریت بھی مگر جوہر قابل کو،کینیڈا میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے بچوں کو بھی وہی سہولیات حاصل ہیں جو کینیڈین بچوں کو حاصل ہیں۔کینیڈا میں کنڈر گارٹن سے اعلیٰ تعلیم تک سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کا سلیبس ایک جیسا ہے،نہ دہرا نصاب ہے نہ طبقاتی نظام تعلیم،بچوں کی تعلیم تربیت اور ان کے رجحان کو دیکھ کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے،فیصلہ بھی والدین نہیں کرتے کہ بچہ کچھ پڑھنا چاہے مگر والدین اسے ڈاکٹر بنانے پر ضد نہیں کرتے،بچے کے طبعی میلان کو مد نظر رکھتے اسے مستقبل میں مرضی کا پیشہ منتخب کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔
پاکستانی طلبہ کو کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے حکومت پاکستان کو ہائر ایجوکیشن کمیشن اور بیرون ملک سفارت خانوں کے ذریعے راغب کرنا ہو گا،اس وقت ہمارے مقابلے میں بھارتی طلبہ کی تعداد میں یہاں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔یہاں پاکستانی قونصل جنرل بٹ صاحب تو کینیڈا کی پارلیمنٹ میں پاکستانی ارکان کے ذریعے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں مگر حکومت کو اس سلسلے میں کوئی بہتر پالیسی سامنے لانا ہو گی تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی طالب علم بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں بہتر خدمات سر انجام دے سکیں۔