تری خاک میں ہے اگر شرر……

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

افغانستان کے حوالے سے طالبان کی تیز رفتار فتوحات پرمغربی لیڈروں کے منہ کھلے رہ گئے۔ مثلاً جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا ہے باقیوں ہی کی مانند کہ افغان فوج کا دم بخود کردینے والی رفتار سے ڈھے جانا حیران کن ہے۔ برق رفتاری اس پورے عمل میں یوں آئی کہ افغان حکومت اور فوج کا ڈھانچہ ختم ہوجانے پر طالبان کو فوراً خلا پر کرنا تھا۔ حتیٰ کہ بدخشان کی ایک 60 ہزار آبادی والی ڈسٹرکٹ پر صرف 6 طالبان نے جاکر قبضہ کرلیا۔ مزاحمت کو کوئی سامنے نہ آیا! یہ اب شاک کی کیفیت میں بیان دینے والی جرمن حکومت وہی ہے جس نے ابتدائی دنوں میں دھمکی دی تھی کہ اگر شریعت کا قانون نافذ ہوا تو ہم امداد بند کردیں گے۔ ہم 430 ملین یورو سالانہ دیتے ہیں، طالبان کے ملک پر قبضے کے نتیجے میں نفاذ شریعت ہوئی تو ایک پائی بھی نہ دیں گے۔ اب طالبان کی حکومت کو جو آزمائشیں اور چیلنج درپیش ہیں ان میں معاشی تلوار سر پر لٹکنا باور کروائی جا رہی ہے۔ 
امریکا اپنے بے پناہ معاشی خسارے کا انتقام (2.26 کھرب ڈالر) طالبان سے لے رہا ہے۔ پہلے ہی دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک افغانستان ہے۔ امریکا نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 ارب ڈالر منجمد کردیے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی فنڈز کا راستہ بند کردیا ہے۔ ملک کی عوامی ضروریات کا بہت بڑا حصہ گرانٹوں سے پورا ہوتا تھا۔ یو این نے طالبان کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ عالمی امداد کا تالا کھولنے کو طالبان حکومت کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ بھاگنے والے رہا سہا خزانہ خالی کرگئے ہیں۔ تاہم یہ سارے اندیشے، خدشے، تجزیے جو پیش کیے جا رہے ہیں، ان شاء اللہ طالبان پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات! طالبانی فارمولے جدا ہیں۔ ان کا رازق ورلڈ بینک، امریکا، آئی ایم ایف نہیں۔ ان سب کے ہر کارے گرانٹوں، امداد کے آئے سودی ڈالر ہیلی کاپٹروں، گاڑیوں میں بھر کر فرار ہوچکے۔ یہ پیسہ عوام تک پہنچنا ہی کب تھا! مثلاً فوجیوں کو ان سارے ڈالروں، یوروں کی برسات کے باوجود تین تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ سبھی، بڑے بھی چھوٹے بھی۔ کوئی بوریاں گاڑیاں بھر کر دوڑا، کوئی خالی ہاتھ ہتھیار چھوڑکر دوڑ گیا۔ تاریخ کی سب سے بڑی جنگی میرا تھان تو یہ رہی۔ اسے عالمی اولمپکس میں جگہ ملنی چاہیے۔ سیاسی عسکری میراتھان ہر سال 15 اگست کو رکھی جائے! سورۃ القریش نازل کرنے والے جس رب نے سارے عالمی ریکارڈ توڑکر فتح ایک نہتی سی چھوٹی فوج کی جھولی میں ڈالی، وہی رزق بھی عطا کرے گا۔ 
یاد رہے کہ اہل مغرب تحقیر کے ساتھ طالبان کو ریگ ٹیگ (Ragtag) فوج، یعنی خستہ حال، غیرمنظم، گنوار کہتے تھے، اب ذرا موازنہ کر دیکھیے! ایئرپورٹ ہی کے مناظر شاندار امریکی فوج کی بدنظمی اور خستہ حالی پر گواہ ہے۔ کابل ایئرپورٹ کے مناظر تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے امریکا کی نااہلی بوکھلاہٹ اور بے حسی پر۔کسرISISکے دھماکوں نے نکال دی جوالمناک ہے۔
رہی بات معاشی کمزوری کی تو سبحان اللہ! طالبان نے غیرملکی امداد پر تکیہ پہلے بھی نہ کیا تھا۔ اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا معاشی پابندیاں گوارا کر لی تھیں۔ رزق حرام کی طرف، سودی قرضوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا تھا۔ حتیٰ کہ اتنے نازک حالات میں جب اس دور میں قحط کا سامنا بھی ہوا، پوست کی کاشت پرملاعمرؒ نے پابندی لگاکر یہ دروازہ بھی بند کردیا تھا! طالبان کا آج بھی یہ کہنا ہے کہ ہمارے جنگجو پانی اور روٹی پر اتنے سال جنگ لڑتے ہیں! 
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر وغنا نہ کر
 کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدار قوتِ حیدری
اور ان کی خاک میں شرر، اللہ رسولؐ کی محبت کا وہ ہے جس نے سپر طاقتوں کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ اب جب 20 سال وادیوں گھاٹیوں چٹانوں میں پانی سے روٹی کھاکر منہ لپیٹ کر رہنے والے سامنے آئے ہیں تو ان نوجوانوں کی صحت و قوت، برگر، پیزے، ہائی پروٹین، بسکٹ، چاکلیٹوں، سپرنگ واٹر کی بوتلوں اور سارے نعمتیں بٹورنے والوں کے مقابل آہنی، فولادی ہے! کفر کا مقابلہ کرنے کو جو قوت درکار ہے وہ انہیں میسر رہے گی اس کا سرچشمہ کوئی اور ہے! وہی فطرت اسد اللہی وہی مرحبی وہی عنتری……! رزق حلال کی برکات دنیا دیکھے گی جو آتے ہی انہوں نے یقینی بنانے کی شروعات کردی ہیں۔ مثلاً طورخم کے اس پار، سرحد پر طالبان نے رشوت اور فالتو ٹیکس ختم کردیے ہیں، سبزی سستی ہوگئی! جبکہ ہمارے ہاں دونوں سرحدوں پر ’کمائی‘ کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں رشوت دے کر بارڈر پر ڈیوٹی لگوانے کا سامان ہوتا ہے! 
 ان کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں نظم اور انضباط پہلے خود اپنی صفوں (طالبانی) میں پیدا کرنا، قائم کرنا ہے۔ عوام پر بعد میں لاگو ہوگا۔ پہلے جوابدہی اور احتساب سرکاری اہلکاروں کا کیا جائے گا۔ بعدازاں عوام کی باری آئے گی۔ مثلاً فتح کی خوشی اور جشن منانے کی ممانعت تھی! صبر وضبط اور سورۃ النصر کی حقیقی عملی تربیت ملاحظہ ہو!
ایک طالب نے خوشی میں ہوائی فائرنگ کردی تو تادیباً اس سے اسلحہ واپس لے لیا! اپنے ہاں ٹکے ٹکے کی کرسیاں مل جانے، الیکشن مار دھاڑ، دھاندلی سے جیت کر جو ڈھول، باجے، بھنگڑے، آتش بازیاں، فائرنگ، دیگیں لنڈھائی جاتی ہیں، موازنہ کافی ہے۔
 اللہ نے اس جہاد کی برکت سے امت کے بڑے پرانے قرضے چکائے ہیں۔ مجموعی طور پر پورے مغربی استعمار، پہلے یورپ بعدازاں اسی کا تسلسل امریکا نے مسلم دنیا میں صدیوں پر محیط معاشی لوٹ مار قتل وغارت کا طوفان برپا کیا۔ حتیٰ کہ افریقہ سے لے جائے گئے غلاموں کی بھی بڑی تعداد مسلمان تھی۔ گزشتہ 20 سال مسلمانوں کے ایمانی جذبات کا جو خون کیا، وہ انسانی خون سے حرمت میں کچھ کم نہ تھا۔ قرآن کی بے حرمتی (گوانتامو کے فلش تک میں بہانا)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیوں کو اپنا شعار بنا لیا۔ ہم مرمر کر جیتے اور جی جی کر مرتے رہے۔ طالبان نے تقریریں، مظاہرے کرکے ٹائر جلاکر جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ بے بہا قربانیاں دے کر خاموشی سے ان کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی ہے! ایک طالب کمانڈر کا کہا سچ ثابت ہوا: تمہارے پاس گھڑی ہے ہمارے پاس وقت۔ 
ان کے لیے ہر گھڑی قیامت کی بنا ڈالی۔ ہانپتے کانپتے وہ خود ہی مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے۔ فوجوں کا انخلا طے شدہ وقت سے بھی پیچھے آتا گیا۔ سفارت خانے کے تحفظ کی بھیک مانگی! لوگ سائیگون سے ڈرا رہے تھے۔ چھت پر ہیلی کاپٹر سے لٹکنے والوں کا ہجوم ویت نام سے نکلنے کی تصویر والا۔ اب سپر پاور پورے افغانستان سے نکل کر صرف ہوائی اڈے کے انتظام کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی تھی۔ اس کی جو تصویر بنی، وہ امریکا کی تاریخ میں سائیگون سے بدتر ہے اور ثبت رہے گی ہمیشہ! اومنی بس سے لٹکنے، اس کے پیچھے دوڑنے کا منظر گویا جہاز نہ ہو رکشا سوزوکی ہو۔ ہر سطح پر ذلت، سارا تکبر ہوا ہوگیا۔ پوری امت کے بدلے بھی چکائے گئے اگرچہ ابھی بہت کچھ باقی ہے! ایسے میں اللہ اپنا یہ وعدہ بھی خود پورا فرمائے کہ عظیم الشان قربانیاں دینے والے ان بہادروں کے لیے دلوں میں کشائش اور محبت دے۔ سیجعل لھم الرحمن ودا (مریم۔ 96)
اب امریکا کو افغانستان استٹڈیز کے لیے یونیورسٹیوں میں خصوصی شعبہ جات کھولنے پڑیں گے۔ یہ صدی زخم چاٹتے گزرے گی ان شاء اللہ۔ سائیگون تو تنہا امریکا کا حوالہ تھا۔ اب تو سبھی باراتی ممالک جو دھوم دھام سے آئے تھے ان سب کا، سارے مسلم دنیا کے سیکولر، لبرلوں کا سائیگون ہوگیا۔ باقی رہے نام اللہ کا!صلوٰۃ الفتح کا انتظار رہا۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے لشکر کا دریا، گھوڑوں پر بیٹھ کر پار کرتے دیکھ کر ایرانیوں کا دیواں آمدند…… ’دیو آگئے دیو آگئے‘ کہتے ہوئے بھاگ لینا۔ افغانستان میں بہ انداز دگر ایسا ہی رعب اور ہیبت طالبان کا چھایا رہا۔ کابل جیسا شہر ایک گولی چلائے بغیر فتح ہوا۔ اشرف غنی کے شاندار صدارتی محل میں سورۃ النصر کی تلاوت ہوئی۔ صلوٰۃ الفتح حضرت سعدؓ کی یاد آتی رہی۔ شاید وہ طالبان نے کہیں اور پڑھی ہو۔ اس کی خبر شائع ہونی چاہیے۔ فتح ایران سے فتح گلوبل ولیج تک کا شکرانہ! (پورے گلوب کی سبھی قابل ذکر فوجیں مفتوح ہوئی ہیں!)
ہم یہ ضرور کہیں گے کہ امریکا کا یہ احسان ہے کہ وہ اپنے ساتھ جہاز بھر کر اپنے پروردہ افغان مرد وزن لے گیا۔ اگرچہ بہت باقی ہیں جو تیار بیٹھے ہیں! ہم ان کے اتحادی تھے۔ اگر ہماری وفاشعاری کا انعام دیتے ہوئے ایک C-17 جہاز یہاں بھی بھیج دیں تو ایسی ہی برآمدات ہمارے ہاں بھی ہیں۔ وہ فدویت میں طاق ہیں۔ وہ بھی خوش رہیں گے ہم بھی سکھی ہو جائیں گے۔ ایسا 8 مارچ 2022ء سے قبل ہوجائے تو بہت خوب!