شب خون ناکام ہو چکا

شب خون ناکام ہو چکا

 اس دفعہ جتنی گہما گہمی ضمنی انتخابات میں دیکھی گئی شائد اس سے پہلے اس حد تک مقابلے کی ٹکر دیکھنے میں نہیں آئی۔گلی، محلے، چوک، چوراہے، دفاتر، کاروباری مقامات ہر جگہ ان انتخابات کے حوالے سے بحث و مباحثہ جاری رہا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ انتخابات کے نتائج کے بعد جوڑ توڑ نے اس دفعہ ایک علیحدہ ہی صورتحال پیش کی جب پی ڈی ایم انتخابات میں شکست کے بعد اپنے وزیرِ اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کو بچانے سے قاصر تھی تو ایسے میں ایک زرداری سب پر بھاری کے شہرت رکھنے والے آصف زرداری میدان میں آ گئے انہوں نے پہلے تو اراکینِ اسمبلی کو خریدنے کی بھرپور کوشش کی جب اس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ایک عجیب و غریب چال چلی ایک ایسے سیاسی خاندان جس کے بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھیں اس میں انہوں نے پھوٹ ڈلوا دی۔ یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو ایک دوسرے کے مدِ مقابل لا کھڑا کیا۔ بہتری اسی میں تھی کہ جب پنجاب کے نتائج اتنے واضح آ گئے تھے تو ان کو مان لیا جاتا اور پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کو اپنا وزیرِ اعلیٰ منتخب کر لینے دیا جاتا لیکن لگتا ہے کہ ان کی اناء آڑے آ گئی۔ گزشتہ تین ماہ کے عرصہ کے دوران ایک بار پھر سے جس طرح خرید و فروخت کے لئے اربوں روپے بانٹے گئے یا بانٹنے کی کوشش کی گئی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے یعنی ہمارے ہاں کے سیاست دان اپنے غیر جمہورے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے اپوزیشن کے سیاست دان ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ کراچی کی ترقی کے لئے خرچ ہونے والے سرمائے سے پنجاب میں پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی ممبران کی خرید و فروخت کر رہی ہے، اس سے قبل قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کو بھی اسی قومی سرمائے کے ساتھ فارغ کیا گیا اور جو شب خون عمران کی حکومت پر مارا گیا اور جس طرح سے اس کی حکومت ختم کی گئی وہ سب کے سامنے ہے اور اس شب خون کے نتیجے میں جو لوگ برسرِ اقتدار آئے ہیں ان سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے ہیں۔  
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے سیاسی سفر میں کچھ نہیں سیکھا ہے۔ سیاسی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جمہوریت کو اس لئے دیگر نظام ہائے حکمرانی پر فوقیت حاصل ہے کہ اس نظام کو ریاستی منصوبہ سازی میں اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے شرکت کا موقع فراہم کیا، ریاستی اداروں کو آئینی محدودات کا پابند بنایا اور حقوق و فرائض میں توازن قائم کیا۔ جمہوریت نے جہاں اختیارات کا کلیہ طے کیا وہیں احتساب کا ایک واضح میکنزم بھی ترتیب دیا۔ تاریخ کے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے جمہوریت نے ایک سیاسی نظام سے بڑھ کر ایک کلچر کی شکل اختیار کر لی۔ جس میں ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ و نسل اور لسانی و مذہبی وابستگی ترقی کے مساوی مواقع فراہم کئے اور اپنی اہلیت کی بنیاد پر ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کا حق دیا۔ لیکن پاکستان میں یہ صورتحال بڑی ہی دگر گوں ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود مائنڈ سیٹ سیاسی عمل میں بے ضابطگی اور بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ سیاسی عمل میں در آنے والی فرسودگی اور غیر جمہوری رویوں کا بنیادی سبب سیاست پر موروثیت اور فیوڈل کلچر کے گہرے اثرات ہیں۔ یہ سیاسی کلچر جس میں جمہوری سیاسی اقدار کے پنپنے کی گنجائش نہیں ہے، اس وقت جمہوری سیاسی عمل کی بقا کے لئے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
آج اس فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن کیا اگر قاسم سوری کی رولنگ غلط تھی اور سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ ٹھیک تھا اب جب سپریم کورٹ نے مزاری کی غلط رولنگ کو غلط قرار دیا تو پی ڈی ایم کی جماعتیں دھمکیوں پر اتر آئی ہیں کہ اگر فل کورٹ نہیں بنایا گیا تو ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کا وکلاء کے ساتھ باجماعت بیٹھ کر بد تمیزی کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ ملکی اداروں کا وقار ملک کی ساکھ اورا ستحکام کی ضمانت ہوتا ہے مگر ہمارے سیاست دانوں کی پہنچ صرف ایک دوسرے کے گریبانوں تک ہی نہیں بلکہ اداروں کو بھی اس میں لپیٹا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ایسی بے یقینی نہ پیدا کی جائے کہ کہ کسی کے لئے کچھ بھی نہ بچے، نہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے لئے جمہوریت اور نہ ہی عوام کے لئے روشن مستقبل کی کوئی آس امید۔ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان کے مسائل کے حل کے لئے کام کریں بلکہ ایسے اقدامات عمل میں لائیں اور ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ ملک میں عوام کی حکمرانی کو مستحکم اور یقینی بنایا جا سکے لیکن جب ان کے یہی نمائندے کچھ ڈلیور کرنے کے بجائے بکنے اور خریدے جانے لگتے ہیں تو ان کا جمہوریت سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے جب بھی جمہوریت کا دور دورہ ہوتا ہے تو سیاست دان بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہر بار حالات کی کنی ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ یہ اصولی سی بات ہے کہ جس کو جہاں مینڈیٹ ملا ہے اسے وہاں حکومت کرنے دی جائے بلکہ ملکی بقا کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو مددگار ہونا چاہئے۔ ایسا نہیں کہ 10 ، 15 جماعتیں مل کر شب خون ماریں اور ایک اکثریت والی پارٹی کو اقتدار سے باہر کر کے برسرِ اقتدار آ جائیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقتور میڈیا اور سول سوسائٹی کی بدولت سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنا پڑا۔ جب اصل حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو عوام کو اندازہ ہوا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کس طرح ریاستی ا داروں کو تباہ کیا اور ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا اور کس کس طریقے سے انہیں اچھی حکمرانی سے دور رکھا گیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں، اس لئے کبھی وہ عدلیہ سے تصادم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کبھی ذرائع ابلاغ کو للکارتی ہیں۔ مگر اب تبدیل شدہ منظر نامے میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر انہیں خود کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اور شائد یہی وہ واحد راستہ ہے جو اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو بچا سکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں