کچھ تو خیال کریں

کچھ تو خیال کریں

اس وقت وطن عزیز سیاسی و معاشی بحرانوں کی زد میں ہے قومی خزانے میں ایک بار پھر خالی ہونے کا کہا جارہاہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دن بڑے ہی کٹھن ہیں۔ ڈیفالٹ ہونے کا امکان شدید ہو رہا ہے بعض معاشی ماہرین تو کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ حکومت باضابطہ اعلان نہیں کر رہی۔ لگتا یہی ہے کیونکہ مہنگائی کا طوفان آرہا ہے بلکہ آچکا ہے۔ آٹا دکانوں میں پہلے کی طرح دستیاب نہیں جب ہوتا ہے تو لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں شناختی کارڈ دکھا کر ایک تھیلا دیا جارہا ہے۔ اگر چہ پٹرول کی قیمت کم کی گئی ہے مگر اس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے شایداس لیے کہ دس روپے کم کیے گئے ہیں ویسے جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی نیچے آچکی ہیں تو یہاں اس حساب سے نیچے کیوں نہیں لائی گئیں۔
عوام کی کھال اتارنا کب تک جاری رہے گا اگروہ اپنے اوپر ڈھا ئے جانے والے مظالم پر سڑکوں پر نہیں آتے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں مگر ایسی پہلو سے ہمارے حکمر ان غور نہیں کر رہے وہ عوام کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل بناتے چلے جا رہے ہیں ذراسی بھی ان کے دل میں نرمی پیدا نہیں ہو رہی بس ان سب کو اقتدار کی پڑی ہوئی ہے۔ دیکھ لیجیے ایک طرف اسمبلیاں توڑنے کی بات ہو رہی ہے اور دوسری جانب انہیں قائم رکھنے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسمبلیاں توڑی جاتی ہیں تو عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے اور اگر قائم رہتی ہیں تو بھی لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکیں گے۔ یہ سب کیا ہے۔ اقتدار کے کھیل سے عوام کاکوئی تعلق نہیں وہ تو نکونک آئے ہوئے ہیں۔ انہیں دن آرام ہے کہ رات کو وہ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ عدالتیں ہیں کہ چپ ہی بھلی۔ جو کچھ ان میں پریشان حال لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم ابھی تک خود کو نہیں بدل سکے اکیسویں صدی میں بھی مہذب نہیں بن سکے، شائستگی سے 
کوسوں دور ہیں، اخلاقیات سے کچھ نہیں سیکھا۔ عجیب دور آگیا ہے کہ ہر با اختیار لیڈر نے یکسر عوام سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ حکمرانوں کو تو چاہیے تھا کہ پچھتر برس کے بعد عوام کو زندگی کی سہولیات فراہم کرتے۔ سائنسی ایجادات سے ان کی زندگیوں میں آ سانیاں پیدا کرتے مگر ایسا نہیں کیا گیا اب ان کے چہروں سے نقاب اتر گیا ہے وہ واضح ہو چکے ہیں اور عوام یہ جان چکے ہیں کہ ان کے ساتھ جو ماضی میں سلوک ہوتا رہے ہے وہ کسی کے کہنے پر ہوا اور جواب ہو رہا ہے وہ کس کی خواہش ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں جو بھی قانون بنتا ہے وہ عوام کی مرضی کے عین مطابق ہوتا ہے اس میں ان کی آرزو شامل ہوتی ہے، یہ نہیں ہوتا اب موجودہ سیاسی منظر کو سامنے رکھیں تو دکھائی دے گا کہ عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے چند بڑے ہیں جو فیصلے کر رہے ہیں اور وہ فیصلے عوامی نہیں ان کے اپنے مدار سے متعلق ہیں کہ کسی کو کرسی چاہیے اور کسی کو اپنی دولت محفوظ کرنا مقصود ہے یوں یہ سب آپس میں الجھے ہوئے ہیں ان کے پیش نظر ملک و قوم کا مفاد نہیں اپنے ذاتی مفادات ہیں لہٰذا لوگوں میں کے مایوسی گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے مگر اہل اقتدار و اختیار کو اس سے کوئی غرض نہیں کوئی مرتا ہے تو مرے کوئی جیتا ہے تو جئے ان کا اس سے کوئی لینا دینا۔ ان کے اس رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کو چاہیے کہ وہ ان کے جلسوں جلوسوں میں شامل ہو کر یہ نہ سمجھیں کہ انہیں ان کے خوابوں کی تعبیر مل جائے گئی یہ تعداد ظاہر کرکے اپنے پاؤں مضبوط کرتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر موجیں کرتے ہیں۔ رہے عوام تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا انہوں نے تو بہت سے وعدے کیے تھے انہیں تو ہر دکھ سے نجات دلانے کی یقین دہا نیاں کرائی تھیں۔ بھولے عوام ہر بار بیوقوف بن جاتے ہیں۔ اس وقت کوئی نون لیگ کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی پیپلز پارٹی کو اپنے زخموں کا مرہم خیال کر رہا ہے اور کوئی پی ٹی آئی کو اپنے لیے سود مند گردان رہا ہے مگر یہ سب جماعتیں اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ان میں موجود اہم عہدوں پر تعینات لوگ ارب کھرب پتی ہیں جو ہمیشہ غیر عوامی فیصلے کرتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں ویسے گر کوئی قانون سازی ہوتی ہے تو جب اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو پھر ہو تو بھی اس سے کیا فرق پکڑتا ہے اگر انہیں عوام سے ہمدردی ہو تو انیس سو تہتر کے آئین کی چند شقوں پر عمل کرلیں تو واقعتا لوگوں کو بہت سی سہولتیں مل سکتی ہیں مگر ان کا کبھی پارلیمنٹ میں ذکر نہیں ہوا۔ انہیں کبھی زیر بحث لایا ہی نہیں گیا بس ہمیں کیوں تخت سے اتارا اسے کیوں بٹھایا۔ اس حوالے سے خوب شور مچتا ہے۔ سڑکوں پر بھی احتجاج ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے اندر بھی ٹی وی چینلوں پر واویلا کیا جاتا مگر افسوس کبھی انہوں نے مہنگائی، بے روز گاری نا انصافی اور سینہ زوری کیخلاف منظم احتجاج نہیں کیا گیا جو بظاہر ہوتا بھی ہے اس کا مقصد اقتدار تک رسائی ہوتا ہے۔ کسی نے مکان کی تعمیر کرنی ہے تو وہ مکان شروع کرکے پچھتاتا ہے عمارتی سامان اس قدر مہنگا ہو گیا ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ اس منظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے قانون کہیں سستا رہا ہے قانون بھی کیا کرے وہ بھی مسائل زدہ ہے۔ اس کو بھی ریلیف چاہیے ہوگا مگر حکمران تو اپنے کے کھیل میں مصروف ہیں۔
اس کا پچھتر برسوں میں تماشا نہیں دیکھا جو آج دیکھا جارہا ہے کہ کس طرح طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور لوگوں کو چکرا دینے والے سیاسی مناظر سے واسطہ پڑا رہا ہے۔ عوام بے چارے تو بے بس نظر آتے ہیں ان کی معمولی حیثیت بھی نہیں رہی چند خاندان ہیں جو اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں اور اس کے لیے کیا کیا حرکتیں کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج قانون کی حکمرانی نہیں طاقت کی حکمرانی ہے کہ جس میں جتنا زور ہے وہ اس کا استعمال کر رہا ہے مگر یہ نہیں سوچا جارہا کہ اس سے ملک وقوم کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سوچا بھی کیوں جائے کہ ان کے ٹھکا نے ادھر بھی ہیں جہاں برف گہری گرتی ہے جہاں زندگی پر سکون ہے قوس قزح ایسی ہے۔ انصاف ہے،آزادی ہے عوام کا احترام ہے لہٰذا انہیں حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں کوئی پریشانی نہیں پریشانی ہے تو غریب محکوم مظلوم اور بے بس عوام کو یہیں جینا ہے اور مرنا ہے کیونکہ انہیں اس دھرتی سے محبت ہے۔