شفاف اور آزادانہ انتخابات، واحد آپشن

شفاف اور آزادانہ انتخابات، واحد آپشن

سینٹ میں ایک ووٹ کی اکثریت کے ساتھ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد بھی اگر کوئی نام نہاد جمہوریت پسند سیاستدان یا بزعم خود دانشور سمجھتا ہے عدم اعتماد کا ووٹ عمران حکومت کو چلتا کرنے اور ملک میں بڑی انقلابی تبدیلی لانے میں کارگر ثابت ہوگا تو وہ یا خود کو دھوکہ دے رہا ہے یا اس نے پاکستانی قوم کو کسی فریب میں مبتلا رکھنے کی ٹھان رکھی ہے… یہ تجربہ پچھلے بیس سال میں بارہا دہرایا گیا ہے ہمیشہ ایک نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اسلام آباد میں براجمان کمزور سے کمزور انتظامیہ خواہ کسی جماعت سے ہو یا اپوزیشن والے کون اور کتنا بڑا جتھہ ہوں ہمیشہ عدم اعتماد کی نمبرگیم میں حریفوں کو شکست سے دوچار کر دکھاتے ہیں خواہ اس ساری دوڑ میں ایک ووٹ کی برتری حاصل ہو… یہی تماشہ سینٹ کے تازہ ترین ووٹ میں دکھایا گیا ہے… جناب یوسف رضا گیلانی عین وقت پر دم دبا کر غائب ہوگئے… سپیکر صادق سنجرانی نے برابر کی تقسیم میں اپنے فیصلہ کن ووٹ کا پلڑا ڈال دیا اور عمران حکومت نے زورشور کے ساتھ اپنی کامیابی کا ڈنکا بجا دیا… جناب آصف علی زرداری نے اس کے پس پردہ اپنا کھیل کھیلا… وہ یقینا پاکستانی سیاست کے بہت کامیاب اور شاطر کھلاڑی ہیں… لوگ کہتے ہیں موصوف نے اس فن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے… یقینا ایسا ہی ہو گا اس لئے اندرخانے اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بگاڑتے… ایک دفعہ کھڑاک دار تقریر کی تھی کہ تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دوں گا… معاً بعد دبئی جا کر بیٹھ گئے کچھ مہینے بعد واپس آئے تو غالباً اندرخانے صلح ہو چکی تھی اس لئے اسٹیبلشمنٹ کی بجائے بلوچستان میں نوازشریف کی صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کے کلہاڑے چلا کر اس کی عمارت کو مسمار کردیا… اب پی ڈی ایم کی تحریک چلی تو اکثریت کا خیال تھا جناب زرداری آگے چل کر کسی نہ کسی مقام پر پسپائی دکھا دیں گے… سو تحریک کے عین عروج پر اس کی صفوں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا… اب پھر اصرار کرتے ہیں مجھے ساتھ ملانا ہے تو عدم اعتماد کے نکتے پر اتفاق کر لو… عدم اعتماد کی دوسری بڑی حامی ہماری نہایت طاقتور اور نہایت مؤثر فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے کیونکہ اس طریقے سے اس کا ہاتھ ایک فیصلہ کن عنصر کی حیثیت سے امور مملکت میں شامل رہتا ہے اور یہیں سے عدم استحکام کی راہیں کھلتی ہیں… کوئی دیرپا حکومت وجود میں نہیں آتی نہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کی اہلیت رکھتی ہے… عمران حکومت کے لئے ظاہر ہے اس میں اپنی بقا کا راز مضمر ہے خواہ عوام کی نگاہوں میں کتنی غیرمقبول ہو عدم اعتماد کی بدولت اس کا چھکڑا چلتا رہے گا…
اس کے برعکس آج کے پاکستان کے اندر دو جماعتیں اور ان کی چھوٹی مقامی تنظیمیں صاف شفاف آزادانہ اور ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی مداخلت سے آزاد عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں… عام انتخابات کے انعقاد کے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑی ہیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ایسے انتخابات جس میں کسی قسم کی بیرونی یا داخلی مداخلت کا شائبہ تک نہ ہو… اس ضمن میں پہلی قابل توجہ بات یہ ہے اگر 14 اگست 1947 کو آزادانہ اور صاف انتخابات کے ذریعے پاکستان جیسی عظیم مملکت کو وجود میں لایا جا سکتا تھا تو اس کے امور کو چلانے کے نتائج پر انحصار اور اکتفا کیوں نہ کیا جائے… اس سے بڑھ کر یہ حقیقت کہ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں گزرے صوبہ خیبر پختونخوا کے 18 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور عمران حکومت کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جن کے نتائج نے اس کی انتظامیہ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں… پنجاب کے بلدیاتی انتخابات سر پر کھڑے ہیں… عمران کی تحریک انصاف کو جی کھول کر ان میں حصہ لینے کی آزادی دی جیسے چھٹی کا دودھ یاد آ جا ئے گا… وہ کہتا ہے کہ مجھے نکالو گے تو سڑکوں پر آ کر تمہارا برا حال کروں گا مگر انتخابی نتائج اگر اپوزیشن کے حق میں ہوئے تو وہ خان بہادر کے ہاتھ پائوں باندھ کر رکھ دیں گے… ان سے اگلی اور فیصلہ کن منزل 2023 کے ملک گیر چنائو ہوں گے تب تحریک انصاف بڑے چائو کے ساتھ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر چکی ہو گی کوئی طعنہ دینے کے قابل نہ رہے گا کہ پاکستانی حکومتیں عین بیچ چوراہے کے اڑا کر رکھ دی جاتی ہیں اور ان کے نتائج جو بھی سامنے آئیں گے وہ بہرصورت عمران حکومت کی آخری رسومات ادا کرنے کا باعث بنیں گے یہ امر جمہوری بھی ہو گا اور فیصلہ کن بھی سوال یہ ہے اس شفاف آئینی اور دستوری راستے کو کیوں نہیں قومی طرزعمل بنایا جاتا… کیا یہ دنیا بھر کے جمہوری ملکوں کی طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ کا اپنا تجویز کردہ طریق کار نہیں ہے پھر اس سے انحراف کیوں؟ ایسا طریق کار جس کے نتائج کی 1971 میں ہم نے تکذیب کی اور آدھا ملک ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا… سبق اس کے باوجود نہیں سیکھا… اب دوبارہ اسی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں… آج کی سیاسی جدوجہد اس کا تقاضا کرتی ہے… ہماری لیڈرشپ اگلے بلدیاتی انتخابات اور 2023 کے ملک گیر چنائو میں پوری تیاریوں کے ساتھ حصہ لے اس کے بعد بھی عمران خان اگر جیت جاتا ہے تو اس کی قسمت! کوئی مائی کا لعل اسے نئی حکومت بنانے سے روک نہیں سکے گا… اس کے برعکس کہ کوئی مائی کا لعل اسے روک نہیں پائے گا… اس کا نام جمہوریت ہے… اس کے برعکس اگر نوازشریف جیتے یا جے یو آئی کامیاب ہو یا ان کی مخلوط حکومت وجود میں آئے تو انہیں پورے پانچ سال تک کام کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے تو اس کے ذریعے کارِ حکومت چلانا چنداں مشکل نہیں رہے گا۔ اسی کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں لہٰذا 2023 تک کے تمام مراحل کو عبور کیجئے، احتجاجی جلسے نکالئے۔ ملک بھر میں مارچ کیجئے رائے عامہ کو بیدار کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیں… جہاں کہیں بھی بیرونی یا اندرونی مداخلت ہو اسے پائوں کی ٹھوکروں سے مسترد کر دیں… اسٹیبلشمنٹ کو صاف بتا دیں اپنی آئینی حدود کی پابندی کرے… نتیجہ آپ کے حق میں ہو یا خلاف اسے سینے سے لگایئے اور اس بدقسمت ملک کو اپنی جمہوریت کے ذائقے سے آشنا ہونے دیں… اس کے علاوہ کوئی بھی طرز عمل آپ اختیار کریں گے وہ اپنے اور قوم کے سروں پر کلہاڑا چلانے کے مترادف ہو گا… لازم ہے تحریک عدم اعتماد کے اتنے تلخ تجربوں کے بعد عام انتخابات کے آپشن پر یکسو ہوا جائے… 
کراچی میں مہینہ بھر کے بھرپور اور کامیاب عوامی مظاہروں کے بعد وہاں کی جماعت نے اپنے امیر نعیم الرحمن صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کے ساتھ کامیاب تحریری معاہدہ کیا ہے وہ اپنے عوام تک بلدیاتی اختیارات منتقل کرنے کی خاطر عزم بالجزم کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور بہت حد تک سرخرو بھی ہوئی ہے… جماعت اسلامی کراچی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاسی ایمان اور یقین کے ساتھ شہرِ قائد میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے… اس میں باقی ملک کی جماعت اسلامی کے لئے سبق پنہاں ہے… حافظ نعیم الرحمن نے بلاشبہ چمکدار ماضی کی یادیں تازہ کر دی ہیں… وہ اسی راہ پر گامزن رہے تو کراچی نہیں پورے پاکستان کی سیاست کا چمکدار ستارہ بن کر اسلامی جمہوری اور قومی قیادت کے افق پر چمک سکتے ہیں… مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں صرف کراچی اور سندھ نہیں پورے پاکستان کی جماعت کے اندر ایک بڑے خلا کو پُر کیا جا سکتا ہے… اور مولانا مودودیؒ کی جماعت کو ایک ایسا قائد مل سکتا ہے جس کے فیصلے نظر آنے یا نہ نظر آنے والے دبائو سے آزاد ہوں…

مصنف کے بارے میں