"وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ سب کو پتا ہے، ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں" : چیف جسٹس اور نگران وزیر اطلاعات عامر میر کے وکیل کے درمیان مکالمہ 

اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟جس پر نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کے وکیل نے کہا سب کو پتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آج پھر کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھے۔ 

سماعت شروع ہوئی تو عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کل کا حکم نامہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جائے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔

چیف جسٹس نے سابق ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا، آپ کے مٶکل کیا ایک وزیر ہیں؟ جہانگیر جدون نے کہا کہ جی وہ وزیر ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وہ بطور وزیر بے یارو مددگار ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ جی وہ ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ سب کو پتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔

صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں، اب سپریم کورٹ میں تین رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے کہ درخواست آنے کے بعد طے کرے گی، کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی؟ صحافی عقیل افضل نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کن صحافیوں کے خلاف کارروائی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں، اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا، ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ صحافیوں کو نوٹس کا معاملہ الیکشن کے بعد تک ملتوی کردیا ہے اور الیکشن کے بعد دوبارہ نوٹس جاری کیے جائیں گے۔ سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔