یہ تھا آزادی مارچ!

یہ تھا آزادی مارچ!

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہ خوں نکلا
جی ہاں! کیا کیا باتیں اڑائی جا رہی تھیں۔ پی ٹی آئی کے معتقدین اور کچھ ضرورت سے زیادہ بھلے مانس تو سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان کی ڈی چوک کے بعد اگلی منزل وزیرِ اعظم ہاؤس ہو گی کیونکہ ان بقول وہ 20 لاکھ لوگوں کا سیلاب اسلام آباد لا رہے تھے۔ تا ہم دنیا نے ایک دن میں دیکھ لیا کیا کچھ ہوا۔ موجودہ حکومت نے پنجاب کو ایسا لاک کیا کہ پی ٹی آئی کے کئی لیڈر بھی مارچ میں شریک نہ ہو سکے۔ لاہور شہر، جس کا سلوگن ’جیو اور جینے دو ہے‘، سمیت پورے پنجاب کے عوام نے مذکورہ مارچ کو پذیرائی نہیں بخشی۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر لاہور میں بمشکل دو اڑھائی ہزار لوگ باہر نکلے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب سے قافلہ تو کیا دس بندے بھی نظر نہیں آئے۔ بعض پی ٹی آئی رہنماؤں نے اسلام آباد آنے کی کوشش کی لیکن نہیں پہنچ سکے۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنماؤں نے خود گرفتاری کی خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال پنجاب کے لوگوں نے اس لانگ مارچ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ صرف کے پی سے لوگوں نے مارچ میں شرکت کی اور ذرائع کے مطابق کے پی کے میں گزشتہ آٹھ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود وہاں سے مارچ کے شرکاء کی تعداد 20 سے 25  ہزار کے درمیان تھی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ عمران خان مارچ میں شرکاء کی تعداد سے بہت مایوس ہوئے۔ زیادہ مایوسی تب ہوئی جب ان کو پتہ چلا کہ پنجاب سے چند لوگ ہی مارچ میں شامل ہونے کے لیے آئے اور اکثر رہنما غائب رہے۔ اسلام آباد میں عمران خان کے بلین ٹری منصوبے کو مشہور کرنے کے لیے پی ٹی آئی والوں نے درختوں کو ہی جلا دیا۔ بلوائیوں کو کھلی چھٹی ملی تو وہ پولیس اور رینجرز کے جوانوں پر حملہ آور ہوئے۔ پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی۔ 27 سے زائد پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو زخمی کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ عدالتی حکم کو روندتے ہوئے عمران خان کے کنٹینر سے بار بار اعلانات ہوتے رہے کہ کارکن ڈی چوک پہنچیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم کی یہ کھلی خلاف ورزی تھی۔ بلکہ یہ سراسر توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ ویسے عمران خان نے نہ تو کبھی آئین اور قانون کا احترام کیا ہے اور وہ نہ ہی اپنے محسن کے کسی احسان کو خاطر میں لائے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اسی طرح کے واقعات لاہور اور کراچی میں بھی ہوئے۔ پی ٹی آئی کے چند مخصوص صحافیوں اور میڈیا ہاؤس کے باقی کسی صحافی یا میڈیا ہاؤس کو برداشت نہیں کیا گیا۔ گزشتہ روز بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں صحافیوں، صحافتی دفاتر اور ڈیوٹی پر مامور کیمرہ مینوں تک پُر تشدد اور پتھراؤ کیا گیا۔ کراچی میں خاتون صحافی کے ساتھ نہ صرف انتہائی بدتمیزی کی بلکہ ان پر اور ان کی ٹیم پر تشدد بھی کیا گیا۔ اس ساری بربادی کا نتیجہ کیا نکلا۔ کچھ بھی نہیں البتہ مذکورہ نام نہاد آزادی مارچ سے عمران خان کی سبکی ہوئی بلکہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ ہوا۔ لیکن اس شور و غوغا میں مقبول و بہادر کشمیری رہنما یاسین ملک کی ناجائز اور غیر قانونی سزا کا معاملہ دب گیا۔ افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ کشمیر کے سفیر کا دعویٰ کرنے والے نے اس سزا کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے جو معاملات 25مئی کو طے ہونا تھے، وہ بھی التوا کا شکار ہو گئے، سکولوں میں بچوں کے جاری امتحانات معطل ہوئے۔ کوئی تو یہ پوچھے کہ آخر عمران خان کا ایجنڈا کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ گزشتہ روز کے واقعات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی ترقی، سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور قوم کی خوشحالی کے بجائے صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ ان کا مطمع نظر بہرصورت حصول اقتدار ہے۔ موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ حکومت کس کی ہو؟ مقصد تو ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی ہونا چاہئے۔ لانگ مارچ بھی ہوا اور نتائج بھی ظاہر ہوئے۔ یہ اب عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس پر کیا ایکشن لیتی ہے؟ عمران خان نے اب چھ دن کا الٹی میٹم دے کر مارچ سے جان چھڑا لی ہے۔ حالانکہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ کاش کہ بھلے مانس لو گ تحریکِ انصاف کے ان کارکنوں سے، جو بہرحال اسلام آباد پہنچ گئے تھے، پوچھ کر دیکھ لیں کہ آیا وہ چھ روز بعد کے بعد اس لا حاصل محنت کو دہرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن چلیں فیس سیونگ کے لیے عوام کو کچھ کہنا بھی تو ہوتا ہے ورنہ چھ روز بعد بھی تو یہی کرنا ہے جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ حکومت اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے کہ وہ باقی مدت پوری کرے گی اور ابھی ایسی کوئی بات زیرغور نہیں ہے کہ قبل از وقت الیکشن کرایا جائے۔ ابھی تو حکومت کے راستے کھلنے والے ہیں۔ اگلے ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ تین چار ممالک سے امداد اور آسان شرائط پر قرضے ملنے کی بھی مضبوط امیدیں ہیں۔ ان ممالک سے امداد اور قرضوں کی راہ میں ابھی تک رکاوٹ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے، جو جلد پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط سے عام آدمی اور تاجر برادری اس لیے متاثر نہیں ہو گی کہ دیگر ممالک سے ملنے والی امداد اور آسان شرائط پر ملنے والے قرضوں سے اس معاملے میں کافی حد تک سپورٹ مل جائے گی۔ علاوہ ازیں کچھ ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر نظرثانی اور نئے معاہدوں سے برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کے لیے بھی رابطے ہو رہے ہیں۔ زراعت کے شعبے کی ترقی اور کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان حکومتی اقدامات سے معاشی صورتحال میں بہت جلد قابلِ ذکر بہتری نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ امریکی ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنے اور سٹاک ایکسچینج کی صورت حال بہتر بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس با رے میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے لائحہ عمل کا اعلان اپنے ستائیس مئی کے روز قوم سے خطاب میں کر دیا ہے۔ ان کے خطاب پہ بات کرنے کے لیے ایک الگ سے کالم درکار ہے جو ان شاء اللہ جلد ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

مصنف کے بارے میں