حد سے گزرنے والے

حد سے گزرنے والے

اگلے روز بابو ضیا آفتاب کاروباری شخصیت اور مشاہد تبارک کسٹم کلیئرنگ کمپنی کے مالک ہیں، گھر تشریف لائے۔ دونوں کے الگ الگ شعبے ہیں مگر ملکی صورتحال نے دونوں کو ایک فکرمندی میں مبتلا پایا کہ وطن عزیز کے مسائل وسائل سے کہیں زیادہ بلکہ ادھار سے بھی حل ہوتے نظر نہیں آتے۔ سیاسی، مسلکی اور اختلافی گفتگو ہمیشہ نتیجہ کے بغیر اور تلخی کے ساتھ ختم ہوتے دیکھی ہے۔ یہ دونوں خالصتاً غیر سیاسی شخصیات ہیں مگر سیاسی صورت حال ہر ایک پر اثر انداز ہوئے دے رہی ہے۔ اسی اثنا میں چند دیگر احباب بھی آ گئے، ملک محمد الفت کمال (گوجرانوالہ) چودھری انوارالحق (آفیسر اے جی آفس) گپ شپ شروع ہو گئی۔ ارشد شریف کی وفات کا مجھے بہت دکھ ہے۔ وہ جس ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے تھے میں نہیں دیکھتا تھا کیونکہ وہ ٹی وی چینل ایک ہی نقطہ نظر پروان چڑھانے کے لیے مشہور تھا۔ جواں سال موت کا افسوس بھی ہوا تھا ان کے جنازے میں لوگوں کی شرکت پر بات ہوئی۔ وہ پی ٹی آئی موقف کے لیے مشہور تھے مگر افسوس ہوا کہ عمران خان ان کے جنازے میں شریک نہ ہوئے اور لاہور میں غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کر کے حاضری لگوا لی۔ اس میں ان کے حامیوں کے لیے بڑی نصیحت ہے۔ اللہ کریم ارشد شریف کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ ابھی بات ہی چل رہی تھی کہ جمعہ کو شروع ہونے والے عمران کے لانگ مارچ کی بات چل نکلی۔ مجھے 2014 کے لانگ مارچ اور دھرنے کی یاد آ گئی۔ لاہور سے 8/9 ہزار لوگ شریک ہوئے۔ وہ سپانسرڈ لانگ مارچ تھا اور لوگوں کو ابھی زیادہ علم نہ تھا کہ عمران نیازی حکمران کیسے ہوں گے۔ حالانکہ کے پی کے میں حکومت کر کے وہ اپنی ’’اہلیت‘‘ منوا چکے تھے۔ لاہور میں 7/8 گھنٹے جلوس بلاوجہ تاخیر سے نکلے کہ ان کو کہیں سے اطلاع تھی کہ نوازشریف ابھی یہ لاہور میں ہوں گے تو استعفا دے دیں گے۔ وہ احتجاج چند سیٹوں پر دھاندلی کے لیے تھا حالانکہ موصوف تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھے۔ گوگل پر ویڈیو چلا کر دیکھ لیں ان کے دونوں بیٹے سلمان اور قاسم ٹرک میں ان کے ساتھ خوش ہیں اور انہوں نے اپنے والد کا یہ روپ اور پذیرائی پہلے سیاسی اعتبار سے نہ دیکھی ہو گی۔ ان کو اطلاع ملی کہ آپ گوجرانوالہ تک جائیں گے تو نوازشریف مستعفی ہو جائیں گے لہٰذا گوجرانوالہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔ وہاں جاتے ہی ن لیگ کے ایم پی اے اور رہنماؤں کی تصویریں اور بل بورڈ ان کے کاروباری دفتر کے سامنے لگے ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک جس کے کارکنوں کی تعداد پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ تھی مگر اس وقت پی ٹی آئی 
کے ورکروں کے ٹرک تھے جنہوں نے ن لیگ کے بل بورڈ اور مقامی قیادت کی تصویروں پر پتھر، جوتے اور ڈنڈے مارے جواب میں جب کئی گنا زیادہ ردعمل آیا تو پھر دوڑیں بھی لگیں اور ارادے بھی ٹوٹے۔ مگر اس واقعہ کے بعد عمران خان نے اپنے بیٹوں کو جلوس سے نکال کر واپس بھیج دیا اور خود ایک گھر میں کچھ گھنٹے انتظار کیا۔ مگر استعفا کی اطلاع نہ آئی لہٰذا گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا۔ مولانا طاہرالقادری کی افرادی قوت کی وجہ سے دھرنا کا ہجوم بنے رہا پھر جب ڈاکٹر طاہر قادری دھرنا سے اٹھے تو دھرنا کا فشار ایسے اترا جیسے سردیوں میں نالوں کے پانی، خزاں میں درختوں کے پتے لیکن اب صرف عمران خان کا مارچ بغیر کسی نظریے کے ہے۔ تب تو دوسروں کو چور کہتے تھے ڈاکو کہتے تھے اب خیر سے اس حوالے سے خودکفیل ہیں۔ حالیہ تاریخ تو ویڈیوز کی صورت میں بھی سب کے سامنے ہے۔ 2018 کے انتخابات کی حقیقت میں نوازشریف اور زرداری صاحب پر مقدمات اور حمایتیوں پر مقدمات کی حقیقت سب کو معلوم ہے۔ کئی بار لکھ چکا ہوں ایک شخص نے کسی سے پوچھا کہ فلاں گاؤں کتنی دور ہے؟ جواب ملا کہ دس کوس دور ہے۔ اس نے پھر پوچھا میں کتنی دیر میں پہنچ جاؤں گا؟ بتانے والے نے کہا کہ وہ سامنے دیکھو سائیکل والا دکان پر موجود ہے اور واپس آ کر بتاؤ پھر بتاؤں گا اشارہ نہ کرنا، وہ گیا اور آ کر بتانے لگا کہ نہیں ہے۔ بتانے والے نے کہا کہ تم 2 گھنٹے میں پہنچ جاؤ گے، اجنبی بہت تلملایا کہ مجھے پہلے ہی بتا دیتا۔ بتانے والے نے کہا کہ پہلے مجھے تمہاری رفتار کا اندازہ نہیں تھا ایسے میں میں تمہیں کیسے بتاتا تم کتنی دیر میں پہنچو گے۔ اب تو عوام کو علم ہے کہ عمران نیازی کے کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں اصلیت، جمہوریت پسندی لہٰذا یہ لانگ مارچ وطن عزیز کی تاریخ کا بے مقصد ترین لانگ مارچ ہے جس میں صرف عمران آئندہ انتخابات میں سیاسی حمایت کے لیے سرگرم رکھنا چاہتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس پوری دنیا نے سنی، جس طرح الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج ہے مگر پی ٹی آئی مقدمہ کی سچائی اور فیصلے کے درست ہونے کی تردید نہ کر سکی اسی طرح اس پریس کانفرنس پر بھی اس میں بتائے گئے سچ کی نفی نہیں کر سکی، بس تاویلیں پیش کر رہی ہے۔ مجھے یاد ہے پھول نگر میں ایک ضمنی انتخاب تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک غلام مصطفیٰ کھر کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اس انتخابی مہم میں قیادت کریں گے۔ تب مسلم لیگ کے ساتھ تمام ریاستی ادارے بھی تھے۔ مصطفیٰ کھر پر فائرنگ بھی کی گئی، کھر صاحب ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے اور سیدھے کھمبے کی طرح جمے رہے۔ فائرنگ کرنے والے فرار ہوئے تو کھر صاحب نے پوچھا، پرویز الٰہی کدھر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلاں گھر میں بیٹھے ہیں۔ کھر صاحب نے کہا کہ وہاں جا کر فائرنگ کرو۔ ورکروں نے خوب فائرنگ کی، واپس آ گئے۔ کھر صاحب نے کہا کہ اب سارا دن کہیں فائرنگ نہیں ہو گی۔ انہوں نے پرویز الٰہی کا علاج کر دیا اور اس میں میاں نوازشریف کو پیغام بھی شامل تھا۔ عمران نیازی کے جھوٹوں نے سب سے معتبر ادارے کے معتبر ترین عہدیداروں کو پریس کانفرنس پر مجبور کیا، یہی جواب تھا۔ اور درست کیا۔ عمران جھوٹ بول کر سیاست میں زندہ ہے جواب میں سچ آتا ہے تو یہ موضوع بنتا ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ آج بھی سیاست میں یہ مریم نواز، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن کے بعد کسی نمبر پر آتے ہیں مگر ٹوئٹر، سوشل میڈیا اور جھوٹ نے ان کے جسد سیاست کو اٹھا رکھا ہے۔ فوجی افسران کی پریس کانفرنس کے بعد عمران کی پریس کانفرنس آ گئی جو اپنے جھوٹ کا دفاع کر رہے تھے مگر ان کے فالوورز کا کیا کریں۔ ایک گاؤں میں شہر کا نام نہیں لکھوں گا کہ سب کو علم ہو جائے گا اور یہ نا مناسب ہے۔ ایک شخص فال نکالنے، دست شناسی اور چوری چکاری کا کھرا بتانے میں مشہور تھا۔ اس کے گاؤں دو تین دن ہفتے میں لوگوں کا میلہ لگا ہوتا بلکہ جلیبی والے، حجام، سموسے والے بھی عارضی دکانیں لگا لیتے تھے۔ حد یہ ہے کہ لوگ اس کو کولا جھوٹا کہہ کر پکارتے، آج بھی وہ جھوٹے کے لقب کے بغیر نہیں پہچانا جاتا۔ لوگ جانتے تھے نام بھی ’’کُولا چوٹھا‘‘ کہہ کر پکارتے مگر فال نکلوانے بھی چلے جایا کرتے تھے۔ یہی حال عمران کے فالوورز کا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر اَت اٹھائی ہوئی ہے۔ ایک عمر رسیدہ عورت کو میں نے مریم نواز کے لیے غلط زبان استعمال کرتے سنا، یقین کریں کہ عورت کے نام پر وہ بوڑھی یوتھن دھبہ ہے مگر یہ رواج عام ہو گیا کہ جھوٹ چلتا ہے، جھوٹ بکتا ہے، سچ ناپید ہے جب ایسی صورت حال ہو تو پھر تباہی آ چکی ہوتی ہے مگر احساس تب ہوتا ہے جب تاریخ کوئی اور لکھتا ہے خود اپنی تاریخ بھی نہیں لکھ سکتے، کیونکہ جھوٹوں کی لکھی گئی تاریخ، کی گئی تقریر اور وہ بھی جھوٹوں کے متعلق کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ اللہ نے شیطان اور جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اور یہ لعنت وطن عزیز میں آکسیجن سے زیادہ اتر چکی ہے۔ تھم جاؤ، اللہ کریم حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ کہتے ہیں شکر کرنے سے پہلے سوچ لو کہیں توبہ کا تقاضا اور مقام تو نہیں، لہٰذا اب بھی وقت ہے حد سے مت گزرو ورنہ گزر جاؤ گے اور نام لیوا بھی کوئی نہ ہو گا۔