مزاحمت یا مفاہمت، شرائط وہی

مزاحمت یا مفاہمت، شرائط وہی

برطانیہ کی انٹرنیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات پر باپ بیٹے کی بریت کا فیصلہ کیا آنا تھا میاں نوازشریف نے فوراً بعد تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام، اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اس کی جانب سے اعلیٰ و نچلی عدالتوں سے مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے ریکارڈ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں… انہوں نے کہا یہ پاکستان نہیں برطانیہ ہے جہاں کی عدالتوں سے انصاف ملتا ہے… ہمارے ملک کے برعکس کرنل باہر نہیں نکلتے… سیرینہ ہوٹل سے شاپر میں رکھے گئے فیصلے پاکستانی ججوں تک نہیں پہنچائے جاتے جن کا وہ اعلان کر دیتے ہیں… نیب کی عدالتوں کے گرد یہ لوگ گھومتے رہتے ہیں اگر پہچان لیے جائیں تو شرم کے مارے منہ چھپا لیتے ہیں… برطانوی عدالتوں میں کوئی ارشد ملک نامی جج یا محمد بشیر نہیں بیٹھا ہوتا جو مقتدر قوتوں کے تابع ہو کر فیصلے جاری کرے… وہاں کوئی ثاقب نثار ہوتا ہے نہ کھوسہ… برطانوی عدالتوں سے میرٹ پر فیصلوں کا اجرا ہوتا ہے… اسی سے ان کی ساکھ بنتی ہے… اس ساکھ کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے… اس کے ساتھ تین مرتبہ منتخب اور اتنی بار برطرف ہونے والے سابق وزیراعظم نے کہا ہم نے مفاہمت کرنی ہے یا مزاحمت شرائط دونوں صورتوں میں ایک ہی ہوں گی… یعنی آئین کی مکمل پاسداری کی جائے، بغیر کسی قسم کی مداخلت کے آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور ان کے نتائج کو عملاً قبول کیا جائے گا… آئندہ کسی وزیراعظم کو گرفتار نہیں کیا جائے گا نہ زبردستی گھر بھیجا جائے گا… قانون کی عملداری ہو گی اور منتخب پارلیمنٹ آزاد اور حکمران ادارے کے طور پر کام کرے گی وغیرہ وغیرہ…  نوازشریف نے کہا ان شرائط پر اگر مفاہمت ہوتی ہے تو سو بسم اللہ… اگر مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا تو ہم تیار ہیں دوسرے الفاظ میں میدان بھی تیار ہے اور گھوڑے بھی حاضر ہیں…
اگرچہ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور Asset Recovery Unit کے انچارج مرزا شہزاد اکبر کا کہنا ہے لندن سے جو فیصلہ جاری ہوا اس کا مقدمہ ہم نے دائر نہیں کرایا تھا لیکن دوسری جانب کے حقائق یہ بتاتے ہیں کہ 2019 میں انٹرنیشنل کرائم ایجنسی کو باقاعدہ خط لکھ کر رابطہ قائم کیا گیا اسی ضمن میں شہزاد اکبر صاحب خود وہاں گئے… اس کے بعد دو سالہ تحقیقات کے نتیجے میں ICA کی جانب سے فیصلہ صادر ہوا ہے جس سے منی لانڈرنگ کے الزامات میں شہباز اور سلمان کی بریت ثابت ہوتی ہے… اس کا لامحالہ اثر پاکستان کی عدالتوں کی کارروائی پر پڑے گا… اس کی روشنی میں ماہرین قانون کے مطابق شریف برادران اور ان کے افرادِ خاندان کے لئے اپنے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن وغیرہ کو الزامات میں سرخروئی حاصل کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا… اسی امر نے مسلم لیگ (ن) والوں کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں… اس کے قائدین نے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسز کے ذریعے لندن کی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اپنے مؤقف کو پاکستانی عوام کے سامنے واضح الفاظ میں پیش کیا ہے اگرچہ حکومتی ارکان خاص طور پر مرزا شہزاد اکبر 
بھی پیچھے نہیں رہے ان کا اصرار کے ساتھ کہنا ہے کہ شہباز شریف کا اپنی بریت کے بارے دعویٰ بے بنیاد ہے ان کے خلاف مقدمہ پاکستانی عدالتوں میں چل رہا ہے… یہاں سے فیصلہ آیا تو اصل حقیقت واضح ہو گی لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے برملا یہ کہہ کر دیسی عدالتوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے کہ ان پر اوپر سے احکام نازل ہوتے ہیں، مقتدر قوتیں ان سے فیصلے لکھواتی ہیں… کرنلوں کا عدالتی کمروںمیں آنا جانا رہتا ہے… نیب کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو تو وہاں منڈلاتے نظر آتے ہیں… پہچانے جائیں تو منہ چھپا لیتے ہیں… مرحوم جج ارشد ملک کو ویڈیو پر اعترافات کی بنیاد پر بہت بدنامی مول لینا پڑی تھی… نیب کی عدالت نمبر1 کے جج محمد بشیر کے بارے میں بھی عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 12:30 بجے بعداز دوپہر کے طے شدہ وقت کے بجائے شام یعنی غروب آفتاب کے بہت بعد قوم کو فیصلے کا منہ دکھانے کے قابل ہوئے کیونکہ اس نے کہیں اور سے لکھا ہوا آنا تھا مگر نوازشریف نے تو اپنی تقریر میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور ان کی جگہ لینے والے جسٹس کھوسہ کو بھی معاف نہیں کیا کیونکہ ان کی برطرفی اور نااہلی کا حکم نامہ اعلیٰ ترین عدالتوں کے ان سب سے سینئر ججوں کی جانب سے سندیسہ بن کر سامنے آیا… نوازشریف نے واضح تر الفاظ میں تاثر دیا ہے ان فیصلوں کا حکم نامہ بھی بالائی قوتوں کی جانب سے نازل ہوا تھا… اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معمولی بیان نہیں ہے… پاکستان کی تاریخ میں اس حد تک پردہ چاک کر کے رکھ دینے والے الزامات پہلے شاید کبھی کسی نے لگائے ہوں گے… تین مرتبہ منتخب وزیراعظم رہنے والے ایک پاکستانی سیاسی قائد کی جانب سے ہماری اعلیٰ عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گٹھ جوڑ کے بارے میں اس قدر سنگین الزام مملکتِ پاکستان کے تمام کے تمام نظامِ احتساب اور عدل پر پانی پھیر کر رکھ دیتے ہیں… اس کے نتیجے میں ہماری اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کی ساکھ زمین بوس ہو کر رہ جاتی ہے… یہ بات پوری قوم کے لئے المیے کا حکم رکھتی ہے… اس کا تدارک کیونکر ممکن ہو گا… یہ امر پاکستان کی بہت بڑی جوڈیشل کمیونٹی کے لیے گہرے غوروفکر کا باعث بنتا ہے… اگر اس مخدوش ترین صورت حال کا فوری طور پر تدارک نہ کیا گیا اور ایسے عملی اقدامات تجویز نہ ہوئے جو ہماری عدلیہ کی خاک میں ملتی ساکھ کو بحال کرنے میں مدد دیں تو اس سرزمین پر عدل و انصاف کے دروازوں کو بند سمجھنا پڑے گا… نوازشریف کے الزامات اگر غلط ہیں تو ان کا ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد کے ساتھ جواب سامنے آنا چاہیے…
اسی تقریر میں ایک سانس کے اندر سابق اور منتخب وزیراعظم نے اپنی جماعت کی صفوں کے اندر بار بار اٹھنے والی بحث کا دروازہ بند کر کے رکھ دینے کی تدبیر بھی کی ہے… انہوں نے کہا کہ اگر مفاہمت کرنی ہے (جس کے شہباز شریف اور ان کے حامی لیگی عناصر خواہش مند ہیں یا مزاحمت کے راستے پر چل نکلنا ہے جس کے خود نوازشریف، مریم نواز اور ان کے کچھ سینئر ساتھی حامی ہیں) دونوں صورتوں میں شرائط ایک ہی ہوں گی… ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا… ان میں سرفہرست آئین کی بالادستی کو عملاً تسلیم کرنا ہے، پارلیمنٹ کی حکمرانی اور نوازشریف کے الفاظ میں آئندہ وزیراعظم کو گرفتار نہ کیا جائے نیز صاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور ان کے نتائج بھی بسروچشم قبول کیے جائیں یعنی وہ تمام شرائط جو آئینِ مملکت کے تحت پارلیمانی جمہوریت کی کم از کم بحالی کے لئے ضروری ہیں… سابق وزیراعظم کے الفاظ میں ان پر مفاہمت ہو سکتی ہے اور اگر تسلیم کرنے کی مکمل یقین دہانی کرا دی جائے تو مزاحمت کا راستہ ترک کیا جا سکتا ہے… ہمارے نزدیک یہی صائب طریقہ عمل ہو گا… مزاحمت کی پالیسی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کے درمیان تصادم کو جنم دے سکتی ہے جو قوم کے لئے مفید ہو گی نہ ملک کے لئے… اس لئے بہتر ہو گا مفاہمت کے عمل کو ہی گلے لگایا جائے… آئین قوم کی متفق علیہ دستاویز ہے… اسے حرزِ جان بنا لینا ہی ہماری انتشار زدہ سیاست کو صراطِ مستقیم پر ڈالنے میں مددگار ثابت ہو گا… یہی عمل پارلیمنٹ کی بالادستی پر منتج ہو گا اور اسی کی کوکھ سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو گی جس کی خاطر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں جیسا کہ آئین تقاضا کرتا ہے باقاعدہ مذاکرات ہو سکتے ہیں… رہی یہ بات کہ آئندہ وزیراعظم کو گرفتار نہیں کیا جائے گا نہ اس منصب پر سرفراز کسی شخصیت کو زبردستی گھر بھیجا جائے گا تو اس سے بڑھ کر قوم کی کوئی توہین نہیں ہو سکتی کہ ماتحت ادارے کے لوگ خواہ وہ کتنا طاقتور ہو جب مناسب سمجھیں اپنے منتخب حکمران کو زبردستی اٹھا کر گھر روانہ کر دیں… ایسا کسی ترقی یافتہ اور مہذب جمہوری ملک میں تصور نہیں کیا جا سکتا… پاکستان میں بھی اس گھٹیا روایت کا یکسر خاتمہ ہو جانا چاہیے…