موت

موت

موت کتنی بھیانک چیز ہے اس کا اندازہ مجھے زندگی میں تین بار شدت سے ہوا‘پہلی دفعہ جب میں اپنے والد کو کامرہ چھائونی کے فوجی ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے دیکھ رہا تھا‘وہ شخص جو زندگی کے انتہائی تلخ حالات اور سخت کسمپرسی میں بھی سر اٹھا کر جیا ہو‘وہ آج اس قدر اذیت میں تھا کہ نہ جی رہا تھا اور نہ ہی یہ منزل سر کر پا رہا تھا۔میں نے اپنی زندگی کے وہ تین دن انتہائی تکلیف میں گزارے جوکامرہ چھائونی کے ہسپتال کی کینٹین‘ایمرجنسی اور بلڈ بینک کے چکر کاٹتے گزرے۔میں جس روز ان کے جنازے کو کندھا دیے غربی قبرستان کی طرف گامزن تھا‘میں سوچ رہا تھا کہ خدا کیوں ایسا کرتا ہے۔آپ جس انسان سے زندگی میں بے تحاشا محبت کرتے ہوں‘جس کے بنا زندگی کا تصور تک نہیں کر سکتے ہوں‘ ایک دم ایسا ہو کہ آپ کو اسی شخص کے بچھڑ جانے کا پیغام ملے‘آپ پر کیا گزرے گی۔آپ کی اس وقت کیا حالت ہو گی جب اُس انسان کا سر آپ کی گود میں ہو جسے دیکھ کر آپ نے زندگی میں خوش رہنا سیکھاہو‘جس نے آپ کو دکھ‘اذیت اور غربت میں بھی ہنستے رہنا سکھایا ہو‘وہی شخص آپ کے سامنے آخری ہچکیاں لے رہا ہو اور افسوس آپ اتنے مجبور ہوں کہ کچھ بھی نہ کر پارہے ہوں۔کس قدر اذیت ناک ہوتے ہیں وہ لمحے جب کوئی ایسا شخص آپ سے جدا ہو رہا ہو جس کی سانسیں آپ کی سانسوں سے جڑی محسوس ہوں ‘آپ کو اس کے بنا زندہ رہنا پڑ جائے۔گوکہ آج میرے والد کو جدا ہوئے چھ سال بیت گئے‘ان کا وہ غم اور اذیت آج تک تروتازہ ہے جو آخری دنوں میں ان کی آنکھوں میں محسوس کی۔آخری ملاقات والے روز مجھے بار بار اپنے پاس بلاتے‘میرے ہاتھ پکڑتے اور کچھ دیر دیکھنے کے بعد آنکھیں بند کرتے اور کسی گہری سوچ میں کھو جاتے۔میں نے زندگی میں پہلی بار اس دن موت کے بارے میں اتنی شدت سے سوچا‘مجھے اس دن بیماری اور موت پر شدید غصہ بھی آیا‘میں وارڈ سے باہر آیا‘غصے میں آنکھیں بند کیں‘میرے آنسو گالوں پر ٹپکے اور میں کامرہ کے اس فوجی ہسپتال کے بینچ پہ یہ سوچتا ہوا دراز ہو  گیاکہ انسان کتنا مجبور ہے‘ساری زندگی جس وقار اور رعب پہ اکڑتا ہے‘جس انا کے ساتھ جیتا ہے‘موت چند سیکنڈ میں اس انسان کی وہ ساری ہوا نکال دیتی ہے جس کے سر پہ وہ اکڑتا ہے۔
 دوسری بار مجھے اس دن موت کا شدت سے احساس ہواجب انتہائی ذہین اور تخلیقی ذہن رکھنے والے دوست(کلاس فیلو) منظور جمشید کی متعفن لاش پنجاب یونیورسٹی کے خالد بن ولید ہال کے کمرہ نمبر 168سے اٹھا رہا تھا۔وہ لاش جس کی حالت اس حد تک بگڑ چکی تھی کہ پہچاننا مشکل تھا‘اس کے گھر والے اس کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے مگر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ موت نے اسے کسی کام کا نہیں چھوڑا تھا۔میں آج بھی منظور کے بارے میں سوچوں تو مجھے اس تصویر کے پیچھے وہ منظور کھڑا دکھائی دیتا ہے جو گھنٹوں آئینے کے سامنے سنورتا‘مختلف پروگرامز میں جانے کے لیے شرٹس اور ٹائی کی میچنگ بناتا‘وہی منظور جوشاپنگ کرتے وقت ہمیشہ خوبصورت اور یونیک چیز کا انتخاب کرتا۔کبھی کبھی تو مجھ پہ غصہ ہوتا کہ پورے دو ماہ گزر گئے‘تم نے عینک نہیں تبدیل کی‘یار یہ فریم پرانا ہو گیا‘چلو نئے ڈیزائن دیکھ کے آتے ہیں اور یوں مجھے سال میں کئی بار گلاسز تبدیل کروا دیتا۔میں آج اس منظور کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جا رہا تھا‘اس کی آنکھوں پر اسی طرح گلاسز موجود تھے جو موت کی جنگ لڑنے کے باوجود نہیں اترے تھے۔میں منظور جمشید کے تابوت کو گھر روانہ کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس وقت ایک ماں پہ کیا گزرے گی جب وہ اپنے اس جواں سالہ بیٹے کی لاش دیکھے گی جو گائوں سے لاہور ایم اے کی ڈگری لینے آیا مگر ماسٹر تو مکمل نہ کر سکا لیکن ایک اٹل حقیقت یعنی موت کی ابدی سند لیے گائو ں روانہ ہو گیا۔میں نے اس دن بھی موت کے بارے میں بڑی شدت سے سوچا اور مجھے موت ایک بھیانک چیز لگی جس نے ایک ماں سے اتنا قابل ترین بیٹا‘بہنوں سے جواں سال بھائی چھین لیا اور اسے ذرا ترس نہ آیا۔
تیسری بار مجھے گزشتہ ستائیس رمضان کو موت بڑی شدید یاد آئی جب عزیزم وقاص فیض کے پھوپھو زاد (فاروق)کی لاش سعودی عرب سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد ائیر پورٹ پر پہنچی‘میں اس دن اس کے تابوت کو سہارا دیتے ہوئے بھی یہ سوچ رہا تھا کہ موت کو ذرا رحم نہیں آیا۔ایک شخص جو غمَ روزگار کے لیے سعودی عرب گیا‘ایک عربی (بدو) کی ٹکر سے ایکسیڈنٹ میں مارا گیا اور اس کے معصوم بچے اور ماں اس کا راستہ تکتی رہ گئی مگر وہ کسی اور دنیا کا مسافر بن گیا۔ میں رستے میں اس تکلیف دہ لمحے پر نظم کہتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ کاش میرا کسی دن موت سے مکالمہ ہو‘میں اس سے پوچھوں کہ تو ایسا کیوں کرتی ہے‘کیا ان لوگوں کو ہی لے جانا ہوتا جن کی زمین پر بھی بہت ضرورت ہوتی ہے مگر افسوس موت سے مکالمہ مجھ جیسے گناہ گار نہیں کر سکتے۔میں نے آج اور کل بھی دو ایسے لوگوں کا جنازہ پڑھا جنہیں ابھی زندہ رہنا چاہیے تھا‘جن کی ابھی اس دنیا میں اشد ضرورت تھی مگر بات پھر وہی کہ اچھے لوگوں کی اوپر بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا موت ان کو دبوچ لیتی ہے۔مستنصر حسین تارڑ نے کراچی لٹریری فیسٹیول میں میزبان کے موت کے بارے میں سوال پر کہا تھاکہ میرا خیال ہے موت انسان کی ڈگنٹی کے خلاف ہے‘آج مجھے بھی یہی لگ رہا ہے ‘ موت انسان سے وہ سب کچھ پل بھر میں چھین لیتی ہے جو وہ کمانے میں اپنی عمر کا قیمتی حصہ لگا دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کے لیے موت سے مکالمہ درکار ہے اور یہ مکالمہ روحانی لوگ شاید کر سکیں‘مجھ جیسے گناہ گار کے بس کا کام نہیں۔مگر کبھی موقع ملا تو ضرور پوچھوں گا کہ موت کو رحم کیوں نہیں آتا۔۔۔۔؟۔ان ساری باتو ں کے بعد ایک ہی جواب ذہن میں آتا ہے کہ انسان واقعی کمزور ہے‘اسے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس کی حیثیت پانی کے اس بلبلے کی مانند ہے جس کے بارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کہ’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے‘‘۔حباب کی کتنی اوقات ہے اس کا اندازہ ہمیں خود ہونا چاہیے ‘اگر اب بھی ہم نے اس بارے میںنہ سوچا تو ہمارے پاس واقعی نہ زندگی بچے گی اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچنا کا کوئی آپشن۔ہم پانی کے بلبلوں کی طرح آئیں گے اور اپنی قلیل عمر گزار کے ٹوٹ جائیں گے۔