سیلاب سب کچھ بہا لے گیا

سیلاب سب کچھ بہا لے گیا

بادل آئے اور برس گئے پھر
ندی نالے اور دریا بپھر گئے 
زندگی بھنور میں گھر گئی مال مویشی کچھ اس طرح سے بہے کہ ہر آنکھ بھیگ گئی۔بچے بڑے اور جوان سرکش لہروں کی لپیٹ میں آ کرچیخیں مارتے رہے مگر انہیں کناروں پر کھڑے بے بس لوگ نہ بچا سکے۔
یہ آنکھیں پانی میں بہتی پْر شکوہ عمارتوں کو ابھی تک دیکھ رہی ہیں۔آنسوؤں اور سسکیوں کے مناظر ہیں کہ دیکھے نہیں جا رہے۔غریبوں کی بستیوں  کے نشاں تک باقی نہیں رہے ہیں
غرض الم و مصائب کی داستانیں ہیں جو رقم ہو رہی ہیں۔میرے وطن کا ایک بڑا حصہ ڈوب چکا ہے۔ہر سمت چیخ و پکار ہے فریادیں ہیں دہائیاں ہیں۔ اس سیلاب نے اہل دل کو تڑپا دیا ہے افسردہ کر دیا ہے دکھی کر دیا ہے وہ ان متاثرین کے لئے جو کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے باوجود اس کے کہ حکمرانوں نے اسے ادھ موا کر دیا ہے اس کی رگوں سے خون نچوڑ لیا ہے آگے بھی ان کے ارادے ٹھیک نہیں وہ اسے مزید ٹیکس شکنجے میں لانا چاہتے ہیں۔
ہم نے اپنی زندگی میں ایسا دلخراش سیلابی منظر کبھی نہیں دیکھا جو مضبوط سے مضبوط پلوں اور شاہراہوں کو پلک جھپکتے میں توڑ مروڑ کر رکھ گیا۔ دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہو گئے  ہو رہے ہیں۔ ہم نے بڑی بڑی گاڑیوں کو بھی تنکوں کی طرح بہتے دیکھا ان میں بیٹھے لوگوں کی آوازیں بھی سنیں جو کلیجہ چیر رہی تھیں۔ جنہوں نے اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے دیکھا وہ ساری زندگی تڑپتے رہیں گے وہ سکون نہیں پا سکیں گے۔یہ کیا ہوگیا کہ ہنستے بستے  لوگ اچانک بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ انہیں دریاؤں نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اب وہ نجانے کہاں ہوں گے؟
حکمرانو! اپنے ذاتی خزانوں کے منہ کھول دو جو لٹ پٹ گئے ہیں انہیں جینے کا حوصلہ دو وہ تمہاری مدد کے طلب گار ہیں مگر حکمران اپنا فرض پورا کرتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہے وہ تصاویر بنانے تک محدود ہیں  وہ دوسروں کو ترغیب و تحریک دے رہے ہیں مگر خود آگے نہیں آ رہے اگر یہ ایک ایک ارب روپے بھی ان بے بس لوگوں پر خرچ کردیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر نہیں یہ عوام کے پیسے کو ذاتی سمجھتے ہیں اور اس پر اپنا حق تصور کرتے ہوئے اسے  تجوریوں سے باہر نہیں لارہے۔
ان کے اس رویے کے پیش نظر  رفاہی تنظیموں نے پریشان حال  لوگوں کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے۔
جی ہاں! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ’’المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ‘‘ رفاہی تنظیم پورے ملک میں سرگرم عمل ہے وہ زندگی کے تمام لوازمات متاثرین کو مہیا کر رہی ہے اس کے کارکنان پر عزم بھی ہیں اور پر جوش بھی۔ یہ تنظیم دیگر ممالک میں بھی متحرک نظر آتی ہے یہاں وطن عزیز میں اس نے تعلیم اور صحت کے حوالے سے کافی کام کیا ہے صوبائی دارالحکومت پنجاب میں  اس کے زیر اہتمام ایک جدید ترین آنکھوں کا ہسپتال قائم کیا گیا ہے جس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگ مستفید ہو چکے ہیں۔ اب جب ملک کے ایک بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا ہے  تو اس نے متاثرہ افراد کی مدد کے لئے کمر کس لی ہے اس رفاہی تنظیم کے سر براہ عبد الرزاق ساجد ہیں اور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نواز کھرل ہیں جو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
اب ایسی تنظیموں کے علاوہ دوسری تنظیموں نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے مگر اللہ اکبر تحریک سیلاب زدہ علاقوں میں سب سے پہلے پہنچی ہے اللہ ان سب کو اجر دے گا۔ جہاں یہ تنظیمیں اپنا کام کر رہی ہیں وہاں سیاسی جماعتیں بھی آگے آرہی ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین نے فنڈز اکٹھا کرنے کا آغاز کر دیا ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ بیرون اندرون  سے دھڑا دھڑ پاکستانی ان کے اکاؤنٹ میں رقوم جمع کرا رہے ہیں۔ انہیں ان پر پورا یقین ہے کہ ان کی رقوم کو سیلاب سے متاثرہ لوگوں پر ہی خرچ کیا جائے گا۔
بہر حال سارے ملک میں ان متاثرین کے لئے خدمت کے جذبے کی ایک لہر ابھر آئی ہے جو جتنی استعداد رکھتا ہے دے رہا ہے اور یہ سلسلہ تا دیر رہنے کا امکان ہے کیونکہ باہر سے اتنی امداد نہیں مل سکتی جتنی چاہیے ہو گی لہذا ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ان کے دکھ بانٹنا ہے۔تاجر حضرات کو بھی دل کھول کر فنڈز اکٹھا کرنا ہوں گے کر بھی رہے ہیں مگر وہ کم ہیں زندگی ہے تو سب کچھ ہے لہٰذا اس کار خیر میں کسی کو بھی پیچھے نہیں رہنا۔ حکومت اور حزب اختلاف کو بھی اس وقت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ یہ نہ دیکھیں کہ کہاں سے کتنا آرہا ہے انہیں اپنے طور سے ہر صورت ان بے چاروں کے سر پر ہاتھ رکھنا ہے بعد میں سیاست ہوتی رہے گی مگر شاید ایسا نہ ہو سکے کیونکہ ذہنوں میں لاوہ پک رہا ہے جو قطعی مناسب نہیں۔اس وقت تو ہم سب کو ساری رنجشیں بھلا کر مل بیٹھنا ہے۔اکیلی حکومت ہو یا حزب اختلاف کوئی کچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ نقصان اتنا ہو چکا ہے کہ اسے پورا کرنے کے لئے کھربوں درکار ہوں گے جبکہ ملک  کی معیشت پہلے ہی بہت خراب ہے۔
حرف آخر یہ کہ زندگی آہوں سسکیوں اور آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب چکی ہے وہ ہاسے اور قہقہے سب خاموش ہو گئے ہیں جو بستے گھروں میں بلند ہوتے تھے اب وہاں سوگ ہے آہیں ہیں اور اندھیرا ہے !