خدمت خلق کاجذبہ

خدمت خلق کاجذبہ

ہم نے یہ بات دل ودماغ میں بٹھا لی ہے کہ بندہ وزیر،مشیر،ایم این اے،ایم پی اے،ناظم،چیئرمین یاکوئی ممبرہوگاتوعوام کی خدمت کرے گاورنہ نہیں حالانکہ حقیقت میں ایسانہیں۔ اس ملک میں جوایم این اے،ایم پی اے،وزیر،مشیراورممبرہوتے ہیں وہ عوام کی خدمت تودورعوام سے ملنابھی گوارہ نہیں کرتے۔ویسے ہماراتو خیال یہ ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کسی وزارت،ممبری،عہدے اورکرسی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہم نے تو اس ملک میں بڑے بڑے وزیروں،مشیروں،ممبران اسمبلی اورناظمین کوعہدے،طاقت اوراقتدارسمیت سب کچھ پاس ہونے کے باوجودبھی خدمت خلق سے محروم ہوتے دیکھاہے۔خدمت خلق کے لئے کسی عہدے،دولت،شہرت اورطاقت نہیں دل میں خدمت خلق کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔جولوگ دل سے عوام کی خدمت کرناچاہتے ہیں بندراستے بھی ان کے لئے پھرنہ صرف خودبخودکھلتے ہیں بلکہ ہمواربھی ہوجاتے ہیں۔فیاض محمدجمال خان یہ ایم این اے اورایم پی اے تودوریہ کوئی ناظم،چیئرمین اورکسی ویلج کونسل کے ممبربھی نہیں لیکن آپ یقین کریں خدمت خلق کی وجہ سے یہ آج ایم این اے،ایم پی اے ،ناظم اورکسی ممبرسے کم نہیں۔ ان کے پاس کوئی ممبری ہے اورنہ ہی کوئی عہدہ اورکرسی لیکن اس کے باوجودایم این اے،ایم پی اے،ناظمین اورممبران بھی اس کے طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فیاض محمدجمال خان کاتعلق ہمارے آبائی ضلع بٹگرام سے ہے لیکن زندگی ان کی ساری بٹگرام سے دوروفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں گزری ہے۔ان کے مرحوم والد محمد یونس تھائی ایمبیسی میں ترجمان رہے لیکن فیاض محمدجمال خان خدمت خلق میں اپنے والدسے بھی کئی قدم آگے نکل کرعوام کے ترجمان بن گئے۔جوکام بٹگرام کے منتخب ممبران اورناظمین74سال میں نہیں کرسکے وہ کام بھی پیرزئی قوم کے اس فرزند نے ممبری اور ناظمی کے بغیر برسوں نہیں مہینوں میں کردئیے ہیں ۔بٹگرام کے منتخب ممبران قومی وصوبائی اسمبلی توآج تک بٹگرام کے ٹیلنٹ کودنیاکے سامنے پیش اوراجاگرکرنے کے لئے کچھ نہ کرسکے لیکن فیاض محمدجمال نے اقتدار،حکومت اورممبری کے بغیربٹگرام کے نوجوانوں کولاہورقلندرکے ہائی پرفارمنگ سنٹرمیں کھیلنے اورنیشنل وانٹرنیشنل کرکٹرسے 
سیکھنے کے مواقع فراہم کرکے یہاں کے نوجوانوں کاایک دیرینہ خواب بھی پوراکردیا،اس کے علاوہ غریب طلباء کے لئے سکالرشپ،فروغ تعلیم کے لئے طلبہ کے مابین انعامی مقابلے ،غریبوں کی مالی امداد، علاقے میں اتحادواتفاق اوراہم عوامی مسائل کے حل کے لئے بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ حکومت واقتدار سے باہر ایک شخص اگراتناکچھ کرسکتاہے تو ایک ایم این اے،ایک ایم پی اے اورایک ناظم کے لئے پھر اتنا یا اس سے زیادہ کرناکیامشکل ہے۔؟ بس دل میں ملک وقوم کی خدمت کاجذبہ ہونا چاہئے۔جب دل میں قوم کی خدمت کاجذبہ اوراپنے علاقے وملک کے لئے کچھ کرنے کاعزم ہوتوپھرمشکل وناممکن کام بھی ممکن ہوجایاکرتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں ہمارواسطہ ہمیشہ ایسے گوہرنایاب مخلوق یالوگوں سے پڑاہے کہ جوسیاست میں قدم رکھنے سے بھی بہت پہلے عوام کاکوئی کام اورکاج نہ کرنے کی قسم اٹھاچکے ہوتے ہیں۔جوحکومت میں ہوتے ہیں وہ کام تودورعوام سے ملنابھی مناسب نہیں سمجھتے اور ہارنے یااپوزیشن میں جانے والے توویسے بھی مقدس گائے کاطوق گلے میں ڈال کرکام شام سے فارغ مکمل فارغ ہونے کاسرٹیفکیٹ حاصل کرلیتے ہیں۔اس ملک میں توسیاست نکموں سے شروع ہوکرنااہلوں پرختم ہوتی ہے۔ گھرمیں جوبندہ کسی کام کانہیں رہتاایسے بندے کوہم سیاستدان بناکرعوام کی خدمت کے لئے میدان میں اتار دیتے ہیں اور ایسے سیاستدانوں کی آج اس ملک میں کوئی کمی نہیں۔اب خود سوچئے جہاں ایسے سیاستدان، ایسے حکمران اور ایسے ممبران ہوں گے وہاں پھر عوامی خدمت اورترقی کی کیاحالت ہو گی۔؟ چندسال پہلے ہمیں ایک جنازے میں شرکت کے لئے بٹگرام جاناہواتووہاں ایک ایم پی اے صاحب کے شاہی درباریامحل سے گزرنے والی سڑک پرفالج کے پے درپے جواٹیک ہم نے دیکھے واللہ ہمیں اس سڑک نہیں بلکہ اس ایم پی اے کی حالت پرروناآیا۔اس روڈپروہ ایم پی اے صاحب روزاسمبلی آتے جاتے اورحلقے کے لئے گزرتے ہوں گے۔ہم توایک ہی دن اس روڈسے گزرے اورپھرکئی دن تک جگہ سے ہلنے کے قابل نہیں رہے۔معلوم نہیں وہ ایم پی اے صاحب روزاس روڈپرکیسے گزرتے ہوں گے۔؟جوشخص ایک ایم پی اے ہوکربھی کسی اورنہیں اپنے گھرتک جانے والی چندکلومیٹرسڑک کوقومے کی حالت سے باہرنہ نکال سکیں اب آپ خوداندازہ لگائیں کہ وہ صاحب پھر عوام کومسائل کی دلدل اورگرداب سے کیسے نکالیں گے۔؟ہمارے ایک دوست تھے کسی زمانے میں اسے بھی سیاستدان بننے کابڑاشوق تھا۔ایک باروہ گائوں کے لوگوں سے کہہ گئے کہ تم صرف ایک مرتبہ مجھے ناظم بنا دو پھر دیکھنا تمہارے یہ سارے مسائل میں کیسے حل کراتا ہوں۔گائوں اوردیہات میں رہنے والے غریبوں کے کیامسائل ہوتے ہیں۔؟پانی نہیں،بجلی نہیں، سکول نہیں،سڑک نہیں وغیرہ وغیرہ۔ خیرعلاقے کے لوگوں نے ہمت کرکے اسے جیسے تیسے ناظم بنادیا۔ناظم بننے کے بعدکئی سال تک وہ پھرکسی کونظرہی نہ آئے۔ایک دن اچانک ہمیں ملے توہم نے غائب ہونے یاغائب رہنے کی وجہ پوچھی توکہنے لگے ۔جوزوی صاحب آپ کو کیاپتہ۔؟اس سیاست میں انسان کتنا مصروف رہتاہے۔اب تومجھے کھاناکھانے کابھی ٹائم نہیں ملتا۔اس کی مصروفیت کاعالم دیکھیں کہ پورے پانچ سال میں اس نے اپنے محلے میں ایک ٹکے کابھی کام نہیں کیا۔یہی حال اوریہی مصروفیات ہمارے اکثرسیاسی نمائندوں کی بھی ہے۔کام کے بندے ہم آگے کرتے نہیں اورجن کوآگے کرتے ہیں ان کوکام کرنے کاکوئی پتہ ہی نہیں ہوتا۔2018کے انتخابات میں ہزارہ اورکے پی کے سمیت ملک کے دیگرحصوں سے ایسے کئی چہرے عوامی خدمت کے لئے سامنے آئے کہ جنہیں اگرموقع دیاجاتاتووہ یقینی طورپرعوامی خدمت کاحق اداکرسکتے تھے مگرہم نے انہیں صرف اس لئے مستردکردیاکہ ان کاتعلق بڑے سیاسی خاندانوں،جاگیرداروں اورسرمایہ داروں سے نہیں تھا۔ہم اس خول سے آخر کب نکلیں گے کہ عوام کی خدمت اورہمارے یہ مسائل بڑے سیاستدان،جاگیرداراورسرمایہ دارنہیں فیاض محمدجمال جیسے درددل رکھنے والے لوگ ہی حل کرسکتے ہیں۔ ہم جب تک روایتی سیاستدانوں کے بجائے خدمت خلق کے جذبے سے سرشارلوگوں کوآگے نہیں لائیں گے تب تک نہ ہمارے یہ مسائل حل ہوں گے اورنہ ہی ہم ترقی کی دوڑمیں آگے بڑھ سکیں گے۔اس لئے ہمیں ذات، پات، جنبہ، برادری اورپارٹی بازی سے بالاترہوکرموجودہ بلدیاتی اورآئندہ عام انتخابات میںایسے لوگوں کاانتخاب کرناہوگاجواپنے دلوں میں صرف اورصرف دکھی انسانیت کی خدمت کاشوق،جذبہ اورلگن رکھتے ہوں ورنہ پھران پیشہ ورسیاستدانوں سے ہمیں یونہی ڈسنا پڑے گا۔

مصنف کے بارے میں