شہباز شریف کا استعفیٰ قبول کر لیں

Najam Wali Khan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

”بی بی کو دو ہی شوق ہیں ایک میک اپ کا اور دوسرا سیاست کا، سیلفیاں بنا لیتی ہیں اور ٹوئیٹر پر واہ واہ کروا لیتی ہیں مگر اس طرح سیاست نہیں ہوتی“ یہ الفاظ پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ نواز لیگ کے ایک عہدیدار کے تھے جو میرے لئے حیران کن تھے کیونکہ وہ مجھے ہمیشہ شریف فیملی کا مقدمہ جوش و خروش ہی نہیں بلکہ دلیل اور منطق کے ساتھ لڑتے نظر آتے تھے مگرمجھے لگا کہ وہ اس بے تکی سیاست اور بے منزل مسافت سے تھکنے لگے ہیں۔ کئی ماہ پہلے کہے گئے سابق حکومتی اور موجودہ تنظیمی عہدیدار کے یہ الفاظ میرے لئے ایک امانت بھی تھے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ہر بات، بیان نہیں ہوتی مگر نوا ز لیگ میں مزاحمتی بیانئے سے تھکتی ہوئی سوچ بڑھتی نظر آ رہی ہے،عہدیدار قیادت سے کوئی امید، کوئی ریلیف چاہتے ہیں، سو میں نے پوچھا، کیا پارٹی نواز شریف کے ساتھ نہیں ہے، جواب ملا کہ اگر آپ یہ بات کہیں گے تو ان تمام عہدیداروں، ارکان اسمبلی اور کارکنوں کی توہین کریں گے جو تمام تر ترغیبات اور مشکلات کے باوجود ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں، لوٹے کتنے ہوئے ہیں، تین سے چارجن میں سے دو مولوی ہیں اور انہی کی تصویریں ہر مرتبہ ایوان وزیراعلیٰ جاری کر دیتا ہے۔میرا سوال تھا کہ پھر یہ ایشو کیا ہے کہ شہباز شریف نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی ہے، جواب تھا کہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اوراس کے بعد سیالکوٹ کے انتخابات نے پارٹی میں مایوسی پیدا کی ہے کیونکہ پارٹی میں مریم نواز سولو فلائیٹ ہی نہیں کر رہیں بلکہ اپنے پیڈ میڈیا سیل سے اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں کی کردار کشی بھی کروا رہی ہیں۔ پارٹی کے حامی فیک اکاؤنٹس سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر حملے کروائے جا رہے ہیں جیسے ایک اکاؤنٹ کسی سیانی کڑی کے نام سے ہے اور لگتا ہے کہ اسے مریم نواز خود ہی ہینڈل یا کم از کم مانیٹر کرتی ہیں۔ یہ اکاونٹ ان کی تقریروں کے اقتباسات تک پیش کرتا ہے اوراس کے سوا پارٹی لیڈروں کی ہجو ہوتی ہے اور ایسے بہت سارے ٹویٹس ہیں۔ مجھ سے سوال تھا کہ اس پوری انتخابی مہم میں مریم نواز نے اپنی امیج بلڈنگ کے علاوہ پارٹی کی کیا خدمت کی ہے،ہر انتخابات کے موقعے پر وہ زبردست تیز قسم کے رنگوں کے جوڑے سلواتی ہیں، اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے کیمرہ مین لگاتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ الیکشن پر بڑی محنت ہو گئی۔ اس موقعے پر پارٹی کے دیگر قائدین کو نہیں بلایا جاتا اوریوں دو تیر چلائے جاتے ہیں، پہلا، سولو فلائیٹ سے واحدبہادر ہونے کا امیج اور دوسرے پارٹی رہنماؤں پر غداری کا یکطرفہ پروپیگنڈہ۔ پارٹی صدر بارے ایک ٹوئیٹ ملاحظہ کیجئے، ’استعفے کی دھمکیاں دے کر اور یہ خبریں لیک کروا کر یقینا اب انہیں پنڈی کی ناراضگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا وہ خوشنودی بہت ضروری ہے۔‘ ایک دوسرا اکاؤنٹ کہتا ہے، ’کوئی استعفے یا ناراضگی کا ہتھیار استعمال کر کے نواز شریف کو بلیک میل کرنے کی کوشش نہ کرے تو بہتر ہے۔ اگر کارکردگی پر استعفیٰ دینا ہے تو تین سال کی اپنی اپوزیشن لیڈر کارکردگی پر استعفیٰ دیں یا عام انتخابات کے نتائج پر‘۔
مجھے کہا گیا،مریم نواز کے ارد گرد خوشامدیوں کا گھیرا ہے اور پرانے کارکن اور رہنما کھڈے لائن لگ چکے ہیں۔ میرا جواب تھا کہ کیا یہ منطقی اور تاریخی عمل نہیں کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پارٹی سنبھالی تھی تو انہوں نے انکلز کوجھنڈی کروا دی تھی اورنئے لوگوں کوموقع دیا تھا بلکہ ان لوگوں کو بھی فارغ کر دیا تھا جنہیں محترمہ نصرت بھٹو کی قربت حاصل تھی۔ جواب درجواب تھا کہ ابھی پارٹی کے لیڈر نواز شریف ہی ہیں، مریم نواز نائب صدر ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے یہ ہو رہا ہے کہ وسطی پنجاب کے ایک اہم ترین ضلعے میں مشرف دو ر میں جان تک قربان کردینے والے رہنما کے بھائی کوشہباز شریف پارٹی صدر بناتے ہیں تو انہیں ہٹا دیا جاتاہے، وہ ضلع جو جٹوں، کشمیریوں اور بہت ساری برادریوں کا ہے وہاں صرف گجر راج قائم ہوجاتا ہے،بات یہاں تک ہی نہیں رہتی بلکہ شہباز شریف کے بنائے ہوئے صدر کی جگہ وہاں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر تین برس پہلے پارٹی جوائن کرنے والے اپنے بزنس پارٹنر کو صدر بنوا دیتے ہیں کیونکہ وہ بزنس پارٹنر نہ صرف گجر ہیں بلکہ مستقبل میں پارٹی کے قائد جنید صفدر کو لاہور میں ایک فلور ملز گفٹ کر چکے ہیں۔ اب نیب میں کیپٹن صفدر اور ان کے پارٹنر دونوں پیشیاں بھگت رہے ہیں کہ جنید صفدر کے پاس چھوٹی عمر میں یہ اثاثے کہاں سے آئے۔ پورے ضلعے کے عوام ہنس رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن میں مار کھاتے ہوئے پارٹی عہدوں سے مال بنانے کا یہ حال ہے تو حکومت میں کیا صورتحال ہو گی اور یہ صورتحال ایک ضلعے کی نہیں ہے، ہر ضلعے میں پرانے قائدین گھروں میں بیٹھ چکے ہیں۔
میں نے مریم نواز کے کراوڈ پلر ہونے کی دلیل دی تو جواب ملا، کراوڈ پلر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سیاست اور انتخابات کی باقی تمام ضروریات ہی بھول جائیں۔مریم نواز پارٹی میں کوئی ایسا بندہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جو ان کی بات کی ذرا سی بھی مخالفت کرنے کی ہمت او رجرأت رکھتا ہو۔اگر کوئی ان سے اختلاف کرتا ہے تو پھر وہ سوشل میڈیا ٹرولز کے ہاتھوں اپنی عزت تارتار کروانے کے لئے تیار ہوجائے۔بتایا گیا کہ مریم نواز کے پاس پارٹی اجلاس میں بہت سارے اعتراضات کاکوئی جواب ہی نہیں تھا جس پر انہوں نے فوری طور پر کورونا ہونے کا ٹوئیٹ کروا دیا۔ اب وہ پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے تیاری کر رہی ہوں گی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ مریم نوازصرف بیانئیے کی سیاست نہیں کر رہیں بلکہ خاندانی سیاست کو بھی اپنے عروج پر لے جار ہی ہیں جو اس وقت بھی تھی جب مشرف کا دور تھا مگر اسے میاں شریف مرحوم نے کنٹرول کر لیا تھا۔ حکومت کے دوران تنازعے میں ایک نام مریم نواز تھا، پی ڈی ایم کے ٹوٹنے میں ایک نام مریم نواز تھا اور اب پارٹی اختلافات میں ایک نام مریم نواز ہے، وہ مفاہمت کی کوشش کی مخالفت کرتی ہیں مگر اسی کوشش کے نتیجے میں جب میاں نواز شریف لندن پہنچتے ہیں یا وہ جیل سے گھر آتی ہیں تو اس کا شکریہ ادا نہیں کرتیں۔ وہ قرار دیتی ہیں کہ انہیں یہ کامیابی اپنی مزاحمت سے ملی ہے۔عین ممکن ہے کہ جو کچھ ہوا ہو وہ مریم نواز کے ڈر اور خوف سے ہی ہوا ہو مگر مسلم لیگ نون اس وقت ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے کامیابی کے ساتھ دو کشتیوں میں کئی برس کا سفر کر لیا مگر اب اسے ایک کشتی کا چناؤ کرنا ہوگا۔ مریم نواز کنوینسڈ ہیں کہ ان کے چچا پالیسی میں غلط اور نظرئیے کے غدار ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ والد صاحب کو کہہ کے شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے فارغ کر دیں،ان کا استعفیٰ قبول کر یں۔ جعلی، دھاندلی زدہ اسمبلیوں کو ٹھوکر مارے اور کراوڈپلر قیادت انقلاب لے آئے۔