سیاسی معاملات گرم، بحران شدید

سیاسی معاملات گرم، بحران شدید

پنجاب سمیت ملک بھر میں شدید بارشیں، سیلاب، مکانات تباہ، سیکڑوں افراد ہلاک، اس تباہی کی جانب توجہ کون دے سیاستدانوں کو سیاسی مسائل سے فرصت نہیں سیاسی محاذ پر پارہ ہائی ہے۔ تیز تر تبدیلیوں نے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں سلب کر لی ہیں۔ 21 ویں صدی کا سکندر اعظم دنیا فتح کرنے نکلا ہے کہاں رُکے گا کچھ پتا نہیں اس کے بیانیے کام کر رہے ہیں۔ ادارے نیوٹرل ہیں؟ ففٹی ففٹی امکانات۔ پنجاب فتح کر لیا کیسے کیا شکست فتح میں کیسے بدلی اس پر بہت کچھ کہا گیا سوشل میڈیا تنقید سے بھرا ہے 26 جولائی کا دن یادگار تھا تاریخ کے صفحات میں اس دن کا ذکر کیا جائے گا عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے پانسہ پلٹ دیا۔ فل کورٹ کی استدعا مسترد، پارٹی ہیڈ کے اختیارات ناقابل قبول پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی ہدایت پر پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے 10 ووٹ قبول کر لیے گئے جبکہ پارٹی چیف چودھری شجاعت نے ارکان کو خط کے ذریعے حکم دیا تھا کہ وہ پرویز الٰہی کو ووٹ نہ ڈالیں۔ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اسی خط کی بنا پر ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کر کے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ قرار دیا۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے راتوں رات سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں فیصلے کیخلاف پٹیشن دائر کر دی، پٹیشن تیار نہیں ہوئی تھی عدالت پہلے کھل گئی، عملہ حاضر دو تین دن لگے خاصی گہما گہمی اور وکلا کے دلائل کے بعد رات 9 بجے فیصلہ سنا دیا گیا۔ منحرفین کے کیس میں حمزہ شہباز کے 197 ووٹوں میں سے پی ٹی آئی کے منحرفین کے ووٹ مائنس کر دیے گئے یہاں پارٹی چیف نے 25 ارکان کو نکالنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری پٹیشن میں پارٹی چیف کے تحریری حکم کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا ان کا استدلال تھا کہ دونوں فیصلوں سے عمران خان کو فائدہ پہنچا مولانا فضل الرحمان سنا ہے ناراض تھے کہا کہ آئین کی شق 63 اے کی تشریح سے آئینی بحران پیدا ہوا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی منتخب نہیں جوڈیشل وزیر اعلیٰ ہیں جنہیں ہر طرح اور ہر طرف سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ دو گھنٹے میں حلف کا حکم گورنر کی معذرت پر صدر نے حلف لیا۔ لوگوں نے کہا شجاعت کے ووٹ حرام عمران خان کے ووٹ حلال۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت نے ہی وزیر اعلیٰ مقرر کرنا ہے تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں اور 3 رکنی بینچ میں قانون سازی کر لیا کرے۔ اس طرح وفاقی حکومت پی ٹی آئی اور عدلیہ میں کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ پاکستان میں پہلی بار ادارے آمنے سامنے آ گئے۔ عدلیہ کو آئین کا پابند بنانے کی تحریک شروع ہو گئی۔ وفاقی حکومت نے جس کے اپنے پاؤں ابھی تک زمین پر نہیں ٹک سکے عدلیہ میں اصلاحات کے عنوان سے قانون سازی پر کام تیز کر دیا پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی گئی۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ آئینی بحران شدید تر ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو نے کہا آئینی عدالت ایوان نے تشکیل دینی ہے لیکن فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے ریویو پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا لیکن اب تک پٹیشن دائر نہ ہو سکی۔ چودھری شجاعت 10 ارکان کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہتے تھے پرویز الٰہی اور مرکزی مجلس عاملہ کے 83 ارکان نے فوری اجلاس بلا کر اپنے سربراہ اور جنرل سیکرٹری کو ہی پارٹی سے نکال دیا۔ پنجاب اسمبلی میں دوست محمد مزاری پر عدم اعتماد اور سبطین خان (پی ٹی آئی امیدوار) سپیکر منتخب ہو گئے۔ ن لیگ چیختی چلاتی رہ گئی۔ اب بیٹھی ڈھول بجا ن لیگ سے ش نہیں ق سے ش نکال دی گئی ہائے رے اقتدار سگوں سے دشمنی، غیروں سے یاری بد بختی ہماری۔ کچھ کا ضمیر بک گیا کچھ کی انا بکی اتنا ہوا کہ آپ کی سرکار بچ گئی۔ ابتدا میں عرض کیا کہ 21 ویں کا سکندر اعظم دنیا فتح کرنے نکلا ہے بیانئے کام کر رہے ہیں سچ ہے جس کو بھی آگ لگانے کا ہنر آتا ہے وہی ایوان سیاست میں نظر آتا ہے۔ پنجاب فتح کرنے پر جشن کی کال فواد چودھری، شیخ رشید اور شہباز گل نے دھمکیوں کی پٹاری کھول دی کہ وفاقی حکومت خیر منائے اسے بھی جلد ہی گھر بھیج دیں گے، دو تین ارکان کے سہارے کھڑی شہباز حکومت کیخلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ شیخ رشید نے جانے کس کی یقین دہانی پر دعویٰ کر دیا کہ عام انتخابات اکتوبر میں ہوں گے پی ٹی آئی کے لیڈران کرام بلکہ سربراہ 
ایڈونچرازم کی راہ پر گامزن ہیں اسی دوران آصف زرداری دبئی پہنچ گئے باخبر ذرائع نے اپنے ہرکارے دوڑائے جنہوں نے خبریں دیں کہ انہیں دبئی میں مجبور کیا گیا کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو اکتوبر نومبر میں انتخابات پر آمادہ کریں۔ آصف زرداری کے صریحاً انکار پر حضرات ناراض ہو گئے تاہم مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ زرداری صاحب کرونا کا شکار ہو گئے اور دبئی میں ہی ہیں دھمکیوں کا سلسلہ جاری عوام کا رویہ بھی جارحانہ یہی کامیابی کی کنجی ٹھہری۔ جتنی بڑی گالی اتنے زیادہ ووٹ ن لیگی لیڈر گالی کیا دیں گے وہ تو بات کرتے ہوئے بھی ہکلاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ سیاسی بحران کا عالم یہ ہے کہ ملک میں چار سال کے دوران کوئی ایسا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نہیں آیا جس کے نام سے پہلے کوئی سابقہ نہ لگا ہو پہلے سلیکٹڈ وزیر اعظم پھر امپورٹڈ وزیر اعظم اب جوڈیشل وزیر اعلیٰ۔ اللہ اپنا رحم کرے۔ یہ ہنر والے کس ہنر کے ساتھ عیب اپنے چھپائے رہتے ہیں۔ وفاقی حکومت گرانے کی مہم بظاہر ناکام ہو گئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے پی ٹی آئی کے چیدہ چیدہ گیارہ ارکان کے استعفے منظور کر لیے اس طرح وفاقی حکومت کو دو تین ارکان کے بجائے چودہ پندرہ ارکان کی اکثریت حاصل ہو جائے گی کیونکہ مجموعی ارکان میں سے پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان کم ہو جائیں گے۔ ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد دو سے تین ماہ میں ضمنی انتخاب ہوں گے جن میں کامیابی کے لیے ن لیگ بھی زور لگائے گی ان انتخابات کے نتیجہ میں اکتوبر نومبر کے الیکشن کی پیش گوئیاں دم توڑ جائیں گی کچھ دنو بعد سپیکر مزید ارکان کے استعفے منظور کرنے کا اعلان کریں گے جن پر ضمنی انتخابات دسمبر جنوری تک ہونے کے امکانات کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ تاہم عام انتخابات کے سلسلے میں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایک طبقہ کی جانب 
سے کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف کو پاکستان واپس نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ انتخابات پر اثر انداز نہ ہو سکیں اس کے علاوہ مریم نواز اور شہباز شریف کی ضمانتیں منسوخ کرائی جائیں اور انہیں گرفتار کر کے ن لیگ کی فرنٹ لائن مسمار کر دی جائے ان خدشات کے پیش نظر پی ڈی ایم کی حکومت نے مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے قومی اسمبلی کے گزشتہ دنوں کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، خواجہ آصف، بلاول بھٹو اور دیگر ارکان کی تند و تیز تقریریں اس پالیسی کی نشاندہی کرتی ہیں اس کے علاوہ میڈیا سے بات چیت کے دوران حکومتی قائدین نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر فارن فنڈنگ کیس کے محفوظ فیصلے کا فوری اعلان کریں اس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے سابق لیڈر اور کیس کے مدعی اکبر ایس بابر سرگرم عمل ہیں۔ حکومت قائدین کا کہنا ہے کہ فیصلے میں تاخیر کس کے کہنے پر کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس دراصل اسرائیل اور بھارت کے لاکھوں ڈالر کا کیس ہے فنانشل ٹائمز نے بھی فارن فنڈنگ میں عارف نقوی کے حوالے سے تفصیلی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی 20 خیراتی میچ کی آمدنی مبینہ طور پر پی ٹی آئی کو بھیجی گئی۔ اکبر ایس بابر کے مطابق عارف نقوی نے 12 لاکھ ڈالر جبکہ عرب امارات کے ایک شیخ کی جانب سے 20 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کو دیے گئے جو بیرون ملک پاکستانیوں کی فنڈنگ کے بالکل برعکس ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کے کروڑوں ڈالر ضبط کیے جا سکتے ہیں جبکہ پارٹی کو پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے تاہم پی ٹی آئی کے لیڈروں کو زعم ہے کہ وہ فیصلے کا اعلان آتے ہی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دیں گے جو اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے گی، واللہ اعلم۔ ان تمام حالات و واقعات سے ملک کو کیا فائدہ پہنچا عوام کو کیا ریلیف ملا، سکندر اعظم کا بنی گالا سے غروب آفتاب کا منظر دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تمام اقدامات اور فیصلوں سے با خبر رہتے ہیں۔ حالیہ بحران میں وہ بیشتر اوقات خاموشی اختیار کیے رہے میڈیا سے بھی دور رہے یہ الگ بات کہ میڈیا کے اینکر پرسنز اپنی ریٹنگ کم ہونے کے خوف سے ٹاک شوز میں ان کی پرانی تقریریں دکھا دکھا کر عوام کو بہلاتے رہے کیوں خاموش رہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ انہیں دم نہ کشیدم کا میسج دیا گیا تھا جب ہوا موافق چل رہی ہو تو پیشگی اقدامات کی کیا ضرورت ہے سب کچھ درست مگر وزیر خزانہ (جواب تک معیشت کی بحالی میں ناکام رہے ہیں) کا کہنا ہے کہ راتوں کو سیاسی تبدیلیاں ہی دن کو معاشی تباہی لا رہی ہیں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 38 فیصد ہو گئی۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں ڈالر ڈھائی سو روپے کی حد کو چھو رہا ہے آئی ایم ایف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کی ادائیگی میں ہچر مچر کر رہا ہے، آرمی چیف نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے رقم دلوائے کپتان نے فوراً کہا یہ آرمی چیف کا کام نہیں کیا کوئی بُری بات کہہ دی۔ امریکا اگر آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالے پاکستان کو رقم مل جائے تو معیشت کو سہارا ملے گا سابق حکومت کے دوران بھی آرمی چیف کے مسلسل دوروں سے فائدہ ہی  پہنچا تھا، بغض معاویہ میں اس طرح کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ اقبال ساجد نے کہا تھا ’’بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرح نفرتیں کرنے پر آ جاؤں تو حد کرتا ہوں‘‘۔ معاشی تباہی اور آئینی بحران کو بڑھنے سے روکنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں