ڈی ڈالرائزیشن قومی سلامتی اور آزادمعیشت کیلئے ضروری!

ڈی ڈالرائزیشن قومی سلامتی اور آزادمعیشت کیلئے ضروری!

دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی نظام کی تشکیل میں امریکہ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے اورگزشتہ سات دہائیوں میں د نیا کے مالیاتی امور پر ڈالرراج رہا ہے۔ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں لین دین اور معاہدوں کیلئے ڈالر کا استعمال کیلئے ڈالرائزیشن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ تاہم ڈالرائزیشن کے بعد ممالک کی معیشتیں آزاد نہیں رہتیں کیونکہ اسی بنیاد پر بین الاقوامی ادارے لین دین کرتی ہیں۔ ڈالر کی بالادستی کا عمل1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب امریکا نے تیل سے مالا مال عرب ممالک سے معاہدہ کیا کہ وہ اپنا تیل صرف ڈالر میں فروخت کرے ژ۔یوں عالمگیریت کی دنیا میں قومی کرنسیاں کمزور یاںختم ہوتی گئیں اور امریکی ڈالر دنیا کی اکاؤنٹ کرنسی بن گیا۔امریکہ ڈالربالادستی سے ہی بڑی معاشی وسیاسی طاقت بن پایا۔90 کی دہائی میں ڈالرائزیشن میں تیزی آئی لیکن اب طاقت کا توازن بدل رہاہے، دنیاکو ایک نئے منصفانہ ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔چین، روس، ترکی، ایران، انڈیا سمیت G20 کے بعض ممالک اپنی باہمی تجارت میں ڈالر سے دور ہو رہے ہیں۔عالمی سطح پرامریکہ نے سیاسی اثرورسوخ میں اضافے کے ساتھ ڈالرائزیشن کا سیاسی استعمال بھی شروع کیا،جس سے تنگ آکر ڈی ڈالرائزیشن کا رجحان شروع ہوا۔ ایران ڈی ڈالرائزیشن اختیار کرنے والا پہلاملک ہے، جو ڈالرائزیشن کے ذریعے ہی تیل فروخت کرتاتھا، پابندیوں کی وجہ سے یورپ نے تیل بحران پر قابو پانے کیلئے متبادل کے طور پر ایک اورنظام بنایاجس سے ایران کیلئے یورپ تیل بیچنا ممکن ہوا۔بعدازاں دیگر ممالک نے ڈی ڈالرائزیشن کی طرف رجحان کیا، جن میں عالمی پالیسیوں میں امریکی قرضوں پر انحصار کو کم کرنا،متبادل کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر کو چھوڑنا، غیر ڈالر اجناس کی تجارت اورذخائر میں اضافہ، اور ڈالرمقابل سونے کی حیثیت کو بڑھانا شامل ہیں۔ عالمی مرکزی بینکوں نے اپریل 2018 سے مارچ 2020 تک لگاتار 22 ماہ میں اپنے امریکی قرضوں کو کم کیا۔حالیہ برسوں میں چین، فرانس، جرمنی ، ترکی ، انڈیااور روس اورمتعدد جی 20 ممبران نے تجارتی سودوں میں امریکی ڈالر کے استعمال کو کم کر دیا ہے۔ سوئفٹ سسٹم پر، جسے روایتی طورپرتجارتی کلیئرنس و ادائیگیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،امریکہ زیادہ کنٹرول رکھتا ہے۔نتیجتاً عالمی ادائیگی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کا حصہ 60 فیصد سے کم ہوکر 40.88 فیصد رہ گیاہے، جبکہ عالمی تجارت تقریباً70سے کم ہو کر 60فیصد تک امریکی ڈالر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بہت سارے ممالک ڈی ڈالرائزیشن ادائیگی کے نظام کی تشکیل کیلئے کام کر رہے ہیں، روس نے 2014اور چین نے 2015 میں کراس بارڈر انٹربینک ادائیگی کا نظام شروع کیا تھا۔ 2014 میں روس پرکریمیا الحاق کی وجہ سے پابندیاں نافذ ہونے پرروس نے اپنے بینکوں کو ادائیگیوں کیلئے ذاتی نیشنل الکٹرانکس و پیمنٹس سسٹم قائم کیاجبکہ چین نے سوئفٹ کا اپنا ورڑن چائنا نیشنل اڈوانسڈ پیمنٹ سسٹم (CNAPS) قائم کیا۔ جس سے ڈالر کی جگہ دیگر کرنسیوں جیسے یورو، رینمنبی اورسونے سے متنوع بنانے کی متعدد مرکزی بینکوں کو موقع ملا اورکووڈ19 نے ڈی ڈالرائزیشن کے اس عمل کو تیز کر دیا ہے۔
چین وروس کی امریکہ کشمکش عروج پر ہے اورامریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ڈالرائزیشن کو بطور ہتھیار استعمال کرسکے۔یہ ایک طویل جنگ ہے،کسی بھی ملک کیلیے ڈالر بالادستی ختم کرنے کیلئے اپنی معیشت کو امریکی معیشت حجم کے برابر کرناہوگا، جیسے چین کی جی ڈی پی امریکا کے تقریباً 25ٹریلین ڈالر کے مقابل 20 ٹریلین ڈالر ہے، روس کی جی ڈی پی2.01اور انڈیا 3.5 ٹریلین ڈالر ہے۔سونا اور ڈیجیٹل کرنسی ڈالر کی حیثیت کم کرنے کی مہم میں اہم ہتھیار ہیں۔چین نے ان ممالک کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا ہے جو اسکی کرنسی رینمنبی کو اپنے دو طرفہ تبادلہ معاہدوں (BSA) کے ذریعے تجارت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیواورایشین انفراسٹرکچرانویسٹمنٹ بینک کے ذریعے یوآن پر مبنی تجارتی وسرمایہ کاری کے نظام کی تشکیل دی ہے۔یوآن پر مبنی تجارت، چین،وسطی ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان ہوتی ہے ۔ چین پہلے ہی50 مسلم ممالک میں 600مختلف منصوبوں پر 400 بلین ڈالرز کی سرمایکاری کر چکا ہے۔ پاکستان نے اس سال او آئی سی خارجہ کونسل اجلاس میں میزبان ہونے کے ناطے چینی وزیر خارجہ کو مدعو کرکے دانشمندانہ وتاریخی اقدام کیا۔ روس نے تجارت کیلئے ڈالر پر انحصار کم کرکے چین، ترکی،ایران، انڈیااور یوریشین اکنامک یونین کے ممبر ممالک کیساتھ دیگرکرنسی میں ادائیگیوں کیلئے معاہدے کیے ہیں،روسی انرجی کمپنیزنے بھی یورو اور روبل میں ادائیگیوں اور وصولیوں 
کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ 2013 میں برکس ممالک برازیل، چین اورانڈیا کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا 95فیصد ڈالر کے ذریعے تھالیکن 2020میں یہ کم ہو کر صرف 10فیصدرہ گیا۔روس نے سوفٹ نظام سے منقطع ہوکرادائیگیوں اور وصولیوں کیلئے ایک نظام میر وضع کیا اور SFPSنامی فنانشل میسیجنگ نظام کوآرمینیا، ترکی اور ازبکستان میں بھی متعارف کروایا ہے، جس سے 23 غیر ملکی بینکس اس نظام سے منسلک ہو چکے ہیں۔روسی سنٹرل بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسی بھی ایشو کرنے پر غور کررہا ہے۔اسکے باوجود روس ڈالر پر کسی حد تک انحصار کرنے پر مجبور رہے گا۔یہ سب نشاندہی ہے کہ عالمی خارجہ پالیسیاں کن خطوط کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان تیزی سے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر، روپے کی گرتی قدر اور بڑھتے مالیاتی وکرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے دوچار ہے،دسمبر 2021 سے روپے کی قدر میں25فیصد کمی ہوئی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینچ مارک سود 11 سال کی بلند ترین شرح 13.75 فیصد ہے۔ مطالبات پر مبنی پالیسیاں پاکستان کے معاشی استحکام پر متضاد اثرات مرتب کر رہی ہیں۔پاکستان ایک ترقی پذیر معیشت ہے جو بڑھتی ہوئی کھپت، سرمایہ کاری وصنعتکاری کے ذریعے ہی پروان چڑھتی ہے۔ پاکستان ڈالرائزڈ معیشت کا متحمل نہیں ہوسکتا، روپے کی گراوٹ معاشی بنیادوں پر نہیں بلکہ ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی اورانتشار کی وجہ سے ہے۔وفاقی حکومت کو چاہئے کہ بلا تاخیر ڈالر کی پرواز کو لگام دے،انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 246 روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔چونکہ ملکی صنعتیں خام مال، اجزاء اور مشیری کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، روپے کی قدر میں اس قدر کمی سے پیداواری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا،حکومت سیاسی استحکام کا ماحول پیدا کرکے درآمدات کے متبادل اوربرآمدات میں اضافے پر نئے سرے سے توجہ مرکوز رکھتے ہوئے روپے کو استحکام دینے کیلئے تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھائے اورفوری طویل مدت سپلائی سائیڈ اصلاحات کرے۔ چین، روس، ترکی، ایران اوردوست ممالک کے ساتھ باڑٹرٹریڈ اورکرنسی کے تبادلے سے امریکی ڈالرقیمت میں تیز رفتار اضافہ روکا جاسکتا ہے۔توانائی کے دیگر متبادل کی تلاش اور قومی آئل ریفائنریز کو اپ گریڈ کیا جائے تاکہ درآمدی بل پر بوجھ کم کیا جاسکے۔ تجارتی توازن برقرار رکھنے کیلئے پالیسی ریٹ کم، برآمدات پر مبنی صنعتوں کو ترقی، زرائع آمدن میں اضافہ کی رغبت والی پالیسیاں اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کوفروغ دیا جائے۔ڈالر سے آزادمالیاتی پالیسیاں ہی پاکستان کی معیشت اور قومی سلامتی کو یقینی بناسکتی ہیں۔

مصنف کے بارے میں